مال کى محبت ایسى برى چیز ہے کہ جب یہ دل میں آتى ہے تو حق تعالى کى یاد اور محبت اس میں نہیں سماتى. کیونکہ ایسے شخص کو تو ہر وقت یہى ادھیڑ بن رہے گى کہ روپیہ کس طرح آئے اور کیونکر جمع ہو. زیور کپڑا ایسا ہونا چاہیے اس کا سامان کس طرح کرنا چاہیے. اتنے برتن ہو جائیں. اتنى چیزیں ہو جائیں. ایسا گھر بنانا چاہیے. باغ لگانا چاہیے. جائداد خریدنا چاہیے. جب رات دن دل اسى میں رہا پھر خدائے تعالى کو یاد کرنے کى فرصت کہاں ملے گى. ایک برائى اس میں یہ ہے کہ جب دل میں اس کى محبت جم جاتى ہے تو مر کر خدا کے پاس جانا اس کو برا معلوم ہوتا ہے کیونکہ یہ خیال آتا ہے کہ مرتے ہى یہ سارا عیش جاتا رہے گا. اور کبھى خاص مرتے وقت دنیا کا چھوٹنا برا معلوم ہوتا ہے. اور جب اس کو معلوم ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالى نے دنیا سے چھڑایا ہے تو توبہ توبہ اللہ تعالى سے دشمنى ہو جاتى ہے اور خاتمہ کفر پر ہوتا ہے. ایک برائى اس میں یہ ہے کہ جب آدمى دنیا سمیٹنے کے پیچھے پڑ جاتا ہے پھر اس کو حرام حلال کا کچھ خیال نہیں رہتا. نہ اپنا اور پرایا حق سوجھتا ہے. نہ جھوٹ اور دغا کى پرواہ ہوتى ہے. بس یہى نیت رہتى ہے کہ کہیں سے آئے لے کر بھر لو. اسى واسطے حدیث میں آیا ہے کہ دنیا کى محبت سارے گناہوں کى جڑ ہے. جب یہ ایسى برى چیز ہے تو ہر مسلمان کو کوشش کرنا چاہیے کہ اس بلا سے بچے اور اپنے دل سے اس دنیا کى محبت باہر کرے. سو علاج اس کا ایک تو یہ ہے کہ موت کو کثرت سے یاد کرے اور ہر وقت سوچے کہ یہ سب سامان ایک دن چھوڑنا ہے. پھر اس میں جى لگانا کیا فائدہ. بلکہ جس قدر زیادہ جى لگے گا اسى قدر چھوڑتے وقت حسرت ہوگى. دوسرے بہت سے علاقے نہ بڑھائے یعنى بہت سے آدمیوں سے میل جول لینا دینا نہ بڑھائے ضرورت سے زیادہ سامان چیز بست مکان جائداد جمع نہ کرے. کاروبار روزگار تجارت حد سے زیادہ نہ پھیلائے. ان چیزوں کو ضرورت اور آرام تک رکھے غرض سب سامان مختصر رکھے.