حدیث16. میں ہے کہ فرمایا جناب رسول خدا صلى اللہ علیہ وسلم نے تجارت کرنے والا بہت سچا گفتگو میں اور برتاؤ میں بڑا امانت دار قیامت میں انبیاء اور صدیقین یعنى جو بڑے بڑے خدا کے ولى ہیں اور جنہوں نے ہر قول اور ہر فعل میں اعلى درجہ کى سچائى اختیار کى ہے اور اللہ میاں کى نہایت اعلى درجہ کى اطاعت کى ہے اور شہیدوں کے ساتھ ہوگا یعنى ایسے تاجر کو جس کى یہ صفتیں ہوں جو بیان کى گئیں قیامت کے روز حضرات انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام اور حضرات صدیقین رضى اللہ عنہم اور حضرات شہداء رحمہم اللہ تعالى کى ہمراہى اور دوزخ سے نجات میسر ہوگى. اور ساتھ ہونے سے یہ مراد نہیں کہ ان حضرات کے برابر رتبہ مل جائے گا بلکہ ایک خاص قسم کى بزرگى مراد ہے جو بڑوں کے ساتھ رہنے سے حاصل ہوتى ہے جیسے کہ کوئى شخص کسى بزرگ کى دنیا میں دعوت کرے اور ان کے ہمراہ ان کے خادموں کى بھى ضیافت کرے تو ظاہر ہے کہ ان بزرگ کے کھانا کھانے کى جگہ اور ان خدام کے کھانا کھانے کى جگہ نیز کھانا ایک ہى ہوگا لیکن جو درجہ ان لوگوں کے نزدیک ان بزرگ کا ہوگا وہ خادموں کا نہیں مگر ہمراہى کا شرف و عزت نیز کھانے اور مکان میں شرکت کا میسر آنا ایک بہت بڑا کمال ہے جو خادموں کو حاصل ہوا ہے خصوصا جناب رسول مقبول صلى اللہ علیہ وسلم کى ہمراہى بہت بڑى دولت ہے. اگر فرض کرو کہ کھانا بھى میسر نہ ہو ہمراہى سے کچھ عزت بھى میسر نہ ہو فقط ہمراہى ہى میسر ہو تو آپ سے محبت کرنے والے مسلمان کے لیے فقط آپ کا دیدار اور آپ کى ہمراہى ہى بڑى دولت ہے بلکہ دیدار تو بڑى چیز ہے آپ کا پڑوس ہى بڑى نعمت ہے لہذا مسلمانوں کو جناب رسول کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کى اس دعا متبرک کا مستحق ہونا ضرور مناسب ہے .
حدیث 20. میں ہے کہ تجارت کرنے والے قىامت کے روز فاجر اور گنہگار اٹھائے جائیں گے مگر جو شخص د-را اور سچ بولا اور خرید و فروخت میں کوئى گناہ نہ کیا تو وہ اس وبال سے بچ جائے گا.