مسئلہ. بى بى نے اپنے میاں کو یا میاں نے اپنى بى بى کو کچھ دیا تو اس کے پھیر لینے کا اختیار نہیں ہے. اسى طرح اگر کسى نے ایسے رشتہ دار کو کچھ دیا جس سے نکاح ہمیشہ کے لیے حرام ہے اور وہ رشتہ خون کا ہے جیسے بھائى بہن بھتیجا بھانجا وغیرہ تو اس سے پھیر لینے کا اختیار نہیں ہے اور اگر قرابت اور رشتہ تو ہے لیکن نکاح حرام نہیں ہے. جیسے چچا زاد پھوپھى زاد بہن بھائى وغیرہ. یا نکاح حرام تو ہے لیکن نسب کے اعتبار سے قرابت نہیں یعنى وہ رشتہ خون کا نہیں بلکہ دودھ کا رشتہ یا اور کوئى رشتہ ہے جیسے دودھ شریک بھائى بہن وغیرہ یا داماد ساس خسر وغیرہ. تو ان سب سے پھیر لینے کا اختیار رہتا ہے.
مسئلہ. جتنى صورتوں میں پھیر لینے کا اختیار ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ بھى پھیر دینے پر راضى ہو جائے اس وقت پھیر لینے کا اختیار ہے جیسا اوپر گزر چکا. لیکن گناہ اس میں بھى ہے اور اگر وہ راضى نہ ہو اور نہ پھیرے تو بدون قضاء قاضى کے زبردستى پھیر لینے کا اختیار نہیں اور اگر زبردستى بدون قضاء کے پھیر لیا تو یہ مالک نہ ہوگا.
مسئلہ. جو کچھ ہبہ کر دینے کے حکم احکام بیان ہوئے ہیں اکثر خدا کى راہ میں خیرات دینے کے بھى وہى احکام ہیں. مثلا بغیر قبضہ کیے فقیر کى ملک میں چیز نہیں جاتى. اور جس چیز کا تقسیم کے بعد دینا شرط ہے اس کا یہاں بھى تقسیم کے بعد دینا شرط ہے. جس چیز کا خالى کر کے دینا ضرورى ہے یہاں بھى خالى کر کے دینا ضرورى ہے البتہ دو با توںکا فرق ہے. ایک ہبہ میں رضا مندى سے پھیر لینے کا اختیار رہتا ہے اور یہاں پھیر لینے کا اختیار نہیں رہتا. دوسرے آٹھ دس آنے پیسے یا آٹھ دس روپے اگر دو فقیروں کو دے دو کہ تم دونوں بانٹ لینا تو یہ بھى درست ہے. اور ہبہ میں اس طرح درست نہیں ہوتا.
مسئلہ. کسى فقیر کو پیسہ دینے لگے مگر دھوکے سے اٹھنى چلى گئى تو اس کے پھیر لینے کا اختیار نہیں ہے.