مسئلہ. تم نے تجارت کے لیے کسى کو کچھ روپے دیئے کہ اس سے تجارت کرو جو کچھ نفع ہوگا وہ ہم تم بانٹ لیں گے یہ جائز ہے اس کو مضاربت کہتے ہیں. لیکن اس کى کئى شرطیں ہیں اگر ان شرطوں کے موافق ہو تو صحیح ہے نہیں تو ناجائز اور فاسد ہے. ایک تو جتنا روپیہ دینا ہو وہ بتلا دو اور اس کو تجارت کے لیے دے بھى دو اپنے پاس نہ رکھو. اگر روپیہ اس کے حوالہ نہ کیا اپنے ہى پاس رکھا تو یہ معاملہ فاسد ہے. دوسرے یہ کہ نفع بانٹنے کى صورت طے کر لو اور بتلا دو کہ تم کو کتنا ملے گا اور اس کو کتنا. اگر یہ بات طے نہیں ہوئى بس اتنا ہى کہا کہ نفع ہم تم دونوں بانٹ لیں گے تو یہ فاسد ہے تیسرے یہ کہ نفع تقسیم کرنے کو اس طرح نہ طے کرو کہ جس قدر نفع ہو اس میں سے دس روپے ہمارے باقى تمہارے. یا دس روپے تمہارے باقى ہمارے. غرضیکہ کچھ خاص رقم مقرر نہ کرو کہ اتنى ہمارى یا اتنى تمہارى بلکہ یوں طے کرو کہ آدھا ہمارا آدھا تمہارا. یا ایک حصہ اس کا دو حصے اس کے یا ایک حصہ ایک کا باقى تین حصے دوسرے کے. غرضیکہ نفع کى تقسیم حصوں کے اعتبار سے کرنا چاہیے نہیں تو معاملہ فاسد ہو جائے گا. اگر کچھ نفع ہوگا تب تو وہ کام کرنے والا اس سے اپنا حصہ پائے گا اور اگر کچھ نفع نہ ہوا تو کچھ نہ پائے گا. اگر یہ شرط کر لى کہ اگر نفع نہ ہوا تب بھى ہم تم کو اصل مال میں سے اتنا دیں گے تو یہ معاملہ فاسد ہے. اسى طرح اگر یہ شرط کى کہ اگر نقصان ہوگا تو اس کام کرنے والے کے ذمہ پڑے گا یا دونوں کے ذمہ ہوگا یہ بھى فاسد ہے. بلکہ حکم یہ ہے کہ جو کچھ نقصان ہو وہ مالک کے ذمہ ہے اسى کا روپیہ گیا.
مسئلہ. جب تک اس کے پاس روپیہ موجود ہو اور اس نے اسباب نہ خریدا ہو تب تک تم کو اس کے موقوف کر دینے اور روپیہ واپس لے لینے کا اختیار ہے اور جب وہ مال خرید چکا تو اب موقوفى کا
اختیار نہیں ہے.