مسئلہ. بازار میں چاندى کا بھاؤ بہت تیز ہے یعنى اٹھارہ آنے کى روپیہ بھر چاندى ملتى ہے روپے کى روپے بھر کوئى نہیں دیتا یا چاندى کا زی بہت عمدہ بنا ہوا ہے اور دس روپے بھر اس کا وزن ہے مگر بارہ سے کم میں نہیں ملتا تو سود سے بچنے کى ترکیب یہ ہے کہ روپے سے نہ خریدو بلکہ پیسوں سے خریدو اور اگر زیادہ لینا ہو تو اشرفیوں سے خریدو یعنى اٹھارہ آنے پیسوں کى عوض میں روپیہ بھر چاندى لے لو یا کچھ ریزگارى یعنى ایک روپے سے کم اور کچھ پیسے دے کر خرید لو تو گناہ نہ ہوگا لیکن ایک روپیہ نقد اور دو نے پیسے نہ دینا چاہیے نہیں تو سود ہو جائے گا اسى طرح اگر آٹھ روپے بھر چاندى نو روپے میں لینا منظور ہے تو سات روپے اور دو روپے کے پیسے دے دو تو سات روپے کے عوض میں سات روپے بھر چاندى ہو گئى باقى سب چاندى ان پیسوں کى عوض میں گئى. اگر دو روپے کے پیسے نہ دو تو کم سے کم اٹھارہ آنے کے پیسے ضرور دینا چاہیے یعنى سات روپے اور چودہ آنے کى ریزگارى اور اٹھارہ آنے کے پیسے دیئے تو چاندى کے مقابلہ میں تو اسى کے برابر چاندى آئى جو کچھ بچى وہ سب پیسوں کى عوض میں ہو گئى اگر آٹھ روپے اور ایک روپے کے پیسے دو گى تو گناہ سے نہ بچ سکو گى کیونکہ آٹھ روپے کى عوض میں آٹھ روپے بھر چاندى ہونى چاہیے پھر یہ پیسے کیسے اس لیے سود ہو گیا. غرضیکہ اتنى بات ہمیشہ خیال میں رکھو کہ جتنى چاندى لى ہے تم اس سے کم چاندى دو اور باقى پیسے شامل کر دو تو سود نہ ہوگا اور یہ بھى یاد رکھو کہ اس طرح ہرگز سود نہ طے کرو کہ نو روپے کى اتنى چاندى دے دو بلکہ یوں کہو کہ سات روپے اور دو. روپے کے پیسوں کے عوض میں یہ چاندى دے دو. اور اگر اس طرح کہا تو پھر سود ہو گیا خوب سمجھ لو.
مسئلہ. اور اگر دونوں لینے دینے والے رضا مند ہو جائیں تو ایک آسان بات یہ ہے کہ جس طرف چاندى وزن میں کم ہو اس طرف پیسے شامل ہونے چائیں.