مسئلہ. جس چیز کے نکلنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے و ہ چیز نجس ہوتى ہے اور جس سے وضو نہیں ٹوٹا وہ نجس بھى نہیں تو اگر ذرا سا خون نکلا کہ زخم کے منہ سے بہا نہیں آیا ذرا سى قے ہوئى منہ بھر نہیں ہوئى اور اس میں کھانا یا پانى یا پت یا جما ہوا خون نکلا تو خون زخم سے بہہ گیا تو وہ نجس ہے اس کا دھونا واجب ہے اور اگر اتنى قے کر کے کٹورے یا لوٹے کو منہ لگا کر کے کلى کے واسطے پانى لیا تو برتن ناپاک ہو جائے گا اس لیے چلو سے پانى لینا چاہیے.
مسئلہ. چھوٹا لڑکا جو دودھ د-التا ہے اس کا بھى یہى حکم ہے کہ اگر منہ بھر نہ ہو تو نجس نہیں ہے اور جب منہ بھر ہو تو نجس ہے. اگر بے اس کے دھوئے نماز پڑھے گى تو نماز نہ ہو گى.
مسئلہ. اگر وضو کرنا تو یاد ہے اور اس کے بعد وضو ٹوٹنا اچھى طرح یاد نہیں کہ ٹوٹا ہے یا نہیں تو اس کا وضو باقى سمجھا جائے گا. اسى سے نماز درست ہے لیکن وضو پھر کر لینا بہتر ہے.
مسئلہ. جس کو وضو کرنے میں شک ہوا کہ فلانا عضو دھویا یا نہیں تو وہ عضو پھر دھو لینا چاہیے اور اگر وضو کر چکنے کے بعد شک ہوا تو کچھ پروا نہ کرے وضو ہو گیا. البتہ اگر یقین ہو جائے کہ فلانى بات رہ گئى ہو تو اس کو کر لے.
مسئلہ. بے وضو قرآن مجید کا چھونا درست نہیں ہے ہاں اگر ایسے کپڑے سے چھولے جو بدن سے جدا ہو تو درست ہے. دوپٹہ یا کرتے کے دامن سے جبکہ اس کو پہنے اوڑھے ہوئے ہو چھونا درست نہیں. ہاں اگر اترا ہوا ہو تو اس سے چھونا درست ہے. اور زبانى پڑھنا درست ہے اور اگر کلام مجید کھلا ہوا رکھا ہے اور اس کو دیکھ دیکھ کر پڑھا لیکن ہاتھ نہیں لگایا یہ بھى درست ہے. اسى طرح بے وضو ایسے تعویذ اور ایسى تشترى کا چھونا بھى درست نہیں ہے جس میں قرآن کى آیت لکھى ہو خوب یاد رکھو.