ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
حق نہیں تھا پریشان کیا بلکہ عالم کی تو اور زیادہ شکایت ہے بس ان بے عنوانیوں کے دوہی سبب ہیں یا تو تہزیب ہی نہیں رہی یا تہزیب میں غلو ہوگیا جب تہزیب میں غلو ہوگیا تو پھر وہ تہزیب ہی کہاں رہی ۔ فرض کیجئے دہلی پہنچنا ہے جب دہلی میں پہنچ کر بھی زور سے آگے کو دوڑیں گے تو اس کا نتیجہ کیا ہوگا یہی ہوگا کہ دہلی سے بھی باہر نکل جائیں گے ۔ یا تو اتنا سکون کہ دہلی جانا ہے لیکن قدم ہی نہیں اٹھاتے یا ایسی دوڑ کہ قلانچیں مارتے مارتے دہلی سے بھی گذر گئے غرض مقصود سے بہر حال دوری ہی رہی ۔ یہ حالت ہوگئی ہے لوگوں کی ۔ مجھے شرم بھی آتی ہے ایسی موٹی موٹی باتوں کی تعلیم کرتے ہوئے جو امور طبعی ہیں اور جن کے لئے کسی تعلیم کرتے ہوئے جو امور طبعی ہیں اور جن کے لئے کسی تعلیم کی ضرورت ہی نہ ہونا چاہیئے تھی طبعی طور پر ان کو خود اختیار کرنا چاہئے تھا ان میں مشغول ہوکر نوبت ہی نہیں آتی تعلیم طریق کی ۔ اور ان سب سے زیادہ خرابی نہ سوچنے کی ہے اگر سوچیں سب طرف نظر پہنچے ۔ یہ میں نہیں کہتا کہ پھر کوتاہی نہیں ہوتی لیکن ہاں اس نوع کی نہیں ہوتی کہ اذیت ہو کیونکہ سوچنے سے آخر اس کے ضروری پہلوؤں کی ایک حد تک تو رعایت ہو ہی جاتی ہے اور جو پھر بھی نظر انداز ہوجاتے ہیں اس وقت ان کے غیر اختیاری ہونے کا نیز فکر واہتمام کرنے کا دوسرے کو احساس ہوجاتا ہے جس سے اثر اذیت میں بہت تخفیف ہوجاتی ہے بس جڑ ساری خرابی کی یہ ہے کہ سوچ نہیں ۔ اب تو یہ نوبت پہنچ گئی ہے کہ بزرگی اور حماقت مرادف سمجھے جانے لگے ہیں بس بزرگ وہی سمجھا جاتا ہے جو احمق ہو یہ حالت ہوگئی ہے ۔ غرض لوگ فکر سے کام نہیں لیتے اسی لئے دوسروں کو اذیت پہنچتی ہے ۔ میں نے تو ایک رسالہ لکھا ہے آداب المعاشرت جس میں ضروری ضروری اصول وآداب معاشرت لکھ دئے ہیں لیکن دیکھئے کون ۔ میں نے اس کے مقدمہ میں قرآن وحدیث سے ثابت کر دیا ہے کہ اصلاح معاشرت نہایت ضروری ہے اور ایک مہتمم بالشان جزو دین ہے خیر آخرت کی فکر تو اللہ والوں کو ہوتی ہے ۔ کم سے کم یہ فکر تو ہو کہ ہمارے کسی فعل سے دوسرے کو اذیت نہ ہو بس اس کی پرواہی نہیں ۔ موٹی موٹی باتیں