ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
کہ واردات کیفیات اضیاف غیبی ہیں ان کا اکرام یہی ہے کہ ان کے مقتضا پر عمل لیا جاوے ورنہ یہ ایسے نازک مزاج مہمان ہیں کہ ادنی بے التفاتی سے خفا ہو کر چلے جاتے ہیں ۔ مگر مقام مجاہدہ والوں کا حکم اس کا عکس ہے ۔ (ملفوظ 72) علماء کے وقار کا قائم رہنا حفاظت دین کے لئے ضروری ہیں لاہور کے جلسہ جمعتہ العلماء کا یہ حال سن کر کہ وہاں پتھر اور جوتے پھینکے گئے بہت افسوس ظاہر فرمایا اور فرمایا کہ چاہے میری رائے کو کم ہمتی پر محمول کیا جائے لیکن میری رائے تو رنگ زمانہ دیکھ کر یہی ہے کہ علماء حجرہ میں بیٹھ کر اپنا یجوز لا یجوز ہی کا کام کریں ورنہ ایسے حال میں عوام کی نظر میں علماء کی کیا وقعت رہ جاوے گی اور علماء کے وقار کا قائم رہنا حفاظت دین کے لیے نہایت ضروی ہے عالمگیر یہ وغیرہ میں ہے کہ اگر کسی بلدہ میں صرف ایک عالم جو مسئلہ مسائل بتاتا ہو اور اس کے جہاد میں چلے جانے سے یہ اندیشہ ہو کہ پھر کوئی مسئلے بتانے والا نہ رہے گا تو ایسے شخص کو جہاد میں جانا جائز نہیں ۔ علماء کو چاہے کہ وہ اپنا کام کریں کیونکہ اگر سپاہی کا کام ویسرائے کرے تو پھر ویسرائے کا کام کون کرے ۔ ایک بار شاہ جہاں بادشاہ کے ٌپاس مولانا عبدالحکیم سیالکوٹی ایک دیوار کے سایہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ یکایک دیوار کے گرنے کے آثار معلوم ہوئے مولانا یہ دیکھتے ہی فورا ہٹ گئے ۔ اور شاہ جہاں اپنے شاہانہ وقار سے اٹھے اس پر شاہ جہاں نے ان سے شکایت کی کہ آپ کو اپنی جان کی میری جان سے زیادہ فکر ہوئی انہوں نے صاف کہا کہ واقعی میری جان تمہاری جان سے زیادہ قیمتی ہے کیونکہ اگر میں نہ ہوں گا تو میرا کام کون کرے گا اور اگر تم نہ ہوگے تو تمہارے بیٹے عالمگیر اور داراشکوہ موجود ہیں وہ سلطنت کا کام سنبھال لیں گے اھ پھر فرمایا کہ اس بہت افسوس ہوتا ہے کہ اپنی ہی جماعت میں