ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
رہا اور اتنی دیر میں سویا کہ وقت پر آنکھ نہ کھلی اور صبح کی جماعت فوت ہوگئی تو اس کی بھی ممانعت ہے چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک ایسے ہی واقعہ پر فرمایا کہ ساری رات سونا اور صبح کی نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنا اس سے ہزار درجہ بہتر ہے کہب رات بھر عبادت کرتا رہے اور صبح کی جماعت فوت کردے بہر حال اگر غیر ضروری مشقت میں کچھ اجر ہوتا تو خود حضور سے بڑھ کر کون عالی ہمت ہوگا ۔ حضور خود کیوں نی اس طریق مشقت کو اختیار فرماتے حضور کی سنت تو یہ ہے جو حدیثوں میں مذکور ہیں ماخیر بین امرین الا اختیار ایسرھما یعنی جب کبھی دو باتوں میں حضور کو اختیار دیا گیا تو حضور نے ہمیشہ اس بات کو اختیار کیا جو دونوں میں سے زیادہ سہل ہوئی ( ملفوظ 143 ) علماء کو شان استغناء اختیار کرنے کی ضرورت بہ سلسلہ کلام فیض التیام فرمایا کہ یوں جی چاہتا ہے علماء کو ایسے طرز پر رہنا چاہئے کہ اگر امراء ان کی خدمت میں کچھ پیش کریں تو اس وقت ان کو یہ اندیشہ ہوکہ کہیں انکار نہ کردیں لوٹا نہ دیں مگر افسوس اب تو اکثر نے وہ طرز اختیار کیا ہے کہ امراء کو یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں مانگ نہ بیٹھیں اھ ۔ ( ملفوظ 144 ) ھدی للمتقین میں تقوٰی کے لغوی معنی کسی سلسلہ کلام میں یہ فرمایا کہ ھدی للمتقین پر ایک اشکال کیا جاتا ہے کہ جو متقی ہوگا اس کے لئے ہدایت کی ضرورت ہی کیا ہے کیونکہ وہ تو پہلے ہی سے متقی ہے ۔ اس کے مختلف جواب دئے گئے ہیں لیکن میرے نزدیک یہاں تقوٰی کے مغوی معنی مراد ہیں یعنی دل میں کھٹک ہی پیدا ہوتی ہے پھر ہدایت ہوتی ہے ۔ اور میری سمجھ میں قرآن سے اتقاء بمعنے کٹھک کی ایک تائید آئی ہے سورۃ واللیل میں فاما من اعطی واتقی وصدق بالحسنٰی فسنیسرہ للیسٰر واما من بخل و