ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
ایسی قوت کا قائل ہونا پڑا ہے کہ جس سے نظریات بد یہبیات ہوجاتے ہیں اور عقلیات مشاہدات اور اس قوت کا نام انہوں نے قوت قدسیہ رکھا ہے تو دوسرے تو کس شمار میں ہیں کہ ذرا سے استبعاد سے خلاف عقل ہونے کا حکم لگا دیا ۔ ( ملفوظ 212 ) معاندانہ طرز اختیار کرنے سے مخاطب کو وحشت ہوتی ہے ایک اہل علم حضرت حکیم الامتہ دام ظلہم العالی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا واقعہ بیان کیا کہ میں فلاں مدرسہ کے جلسہ میں شریک تھا وہاں پر مختلف لوگوں کی تقریریں ہوئی تھیں میری بھی تقریر تھی ایک صاحب اسی شہرمیں دور درواز سے آئے ہوئے تھے ان کی بھی اسی جلسہ میں تقریر ہوئی انہوں نے اپنی تقریر میں مسلمانوں کو اور علماء کو بہت برا بھلا کہا کہ سب قوموں میں اتفاق ہے مگر مسلمانوں میں اور علماء میں نہیں اور انہوں نے ہندوؤں کی بہت تعریف کی ان کی اس تقریر سے حاضرین جلسہ کی بہت دل شکنی ہوئی جب وہ تقریر کرچکے تو میں کھڑا ہوا اور میں نے کہا کہ یہ صاحب جنہوں نے تقریر کی ہے ہمارے مہمان ہیں اور جو کچھ انہوں نے بیان کیا ہے اپنے نزدیک مسلمانوں کی خیر خواہی سے بیان کیا ہے اور ان کے طرز بیان کی مثال ایسی ہے کہ جیسے کوئی شخص معمولی بد پرہیزی کی ہے تو اس طرز سے اس طبیب کا مقصود اظہار واقعہ نہیں ہوتا بلکہ اس مریض کو زیادہ تنبیہ کرنا مقصود ہوتا ہے تاکہ وہ اور زیادہ پرہیز اختیار کرے ورنہ واقعہ تو یہ ہے کہ موجودہ حالت میں بھی جتنا اتفاق مسلمانوں میں ہے اتنا کسی قوم میں نہیں اور نہ ہوسکتا ہے کیونکہ جو قوم ایک خدا کی قائل نہ ہو ان میں کیا اتفاق ہوسکتا ہے خواہ وہ عیسائی ہوں جو تثلیث کے قائل ہیں یا ہندو جو ہزاروں شرکاء کے قائل ہیں یا ان میں آریے ہوں جو تین قدیم بالذات