ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
( ملفوظ 242 ) اللہ تعالی سے ہمیشہ حسن ظن کی ضرورت ایک صاحب کو حجرت والا نے ان کے کسی مضمون کے جواب میں تحریر فرمایا کہ تم کو مجھ سے اتنی مناسبت تو ہے کہ تم سے مجھ کو ایزا نہ پہنچے ۔ انہوں نے اس کا یہ مطلب لیا کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت والا مجھ سے ناراض ہیں تب ہی تو یہ تحریر فرمایا حضرت والا نے اس پر ان کو تنبیہ فرمائی اور فرمایا کہ اس کا تو مطلب یہ ہوا کہ تم کو جو کچھ لکھا کروں وہ سوچ سوچ کر لکھا کروں کہ کہیں تم اس کا مطلب یہ نہ لے لو وہ نہ لے لو ۔ پھر ارشاد فرمایا کہ مجھ کو اس وقت اس واقعہ سے کہ ان کے سوء ظن سے میں ناراض ہوگیا بہت فائدہ ہوا حق تعالٰی نے اس سے ایک علم عظیم عطا فرمایا وہ یہ کہ بندہ کو چاہئے کہ اللہ تعالٰٰی کے ساتھ ہمیشہ حسن ظن ہی رکھے اگرچہ وہ حسن ظن جھوٹا ہی کیوں نہ ہو ۔ کیونکہ جب وہ حق تعالٰٰی سے حسن ظن رکھے گا تو اس کو اللہ تعالٰی سے محبت پیدا ہوجائے گی جو حسن ظن جا ثر ہے ۔ پس جب اس کو حق تعالٰی سے محبت پیدا ہوجائے گی تو حق تعالٰی بھی اس سے محبت فرمائیں گے ۔ ایک بار ایک ایسا ہی مضمون اور ارشاد فرمایا جس کا مطلب یہ تھا کہ جب بندہ کے اوپر حق تعالٰٰی کے ہر قسم کے احسانات ہیں اور پھر بھی بندہ حق تعالٰی کے ساتھ اپنا گمان نیک نہ رکھے بلکہ یہی خیال کرتا رہے کہ ح تعالٰی مجھ سے ناراض ہیں تو یہ کتنا برا خیال ہے ( ملفوظ 243 ) تصرف میں بھی قصد ضروری ہے فرمایا تصرف میں قصد بھی ضروری ہے اور علم بھی اور کرامت میں قصد تو ہوتا ہی نہیں باقی علم بھی ضروری نہیں ۔ اب لوگوں نے بزرگوں کے تصرفات کو بھی ان کی کرامتوں میں ٹھونس دیا ہے حالانکہ تصرف اور چیز ہے اور کرامت اور چیز ۔