ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
(ملفوظ 77 ) گناہوں سے حفاظت کے اہتمام کی ضرورت استفسار پر فرمایا کہ صوفیہ نے گناہوں کے وساوس کے متعلق یہ معیار قائم کیا ہے کہ اگر ایک ہی گناہ کا بار بار وسوسہ آئے تو وہ نفس کی جانب سے ہے ورنہ شیطان کی طرف سے ہے کیونکہ نفس تو اسی گناہ کا بار بار تقاضا کرتا ہے جس سے اس کو لذت ملتی ہے اور شیطان کو لذت سے کچھ مطلب نہیں اسے تو بھکانا مقصود ہے اس لئے کبھی کسی گناہ کا وسوسہ ڈالتا ہے کبھی کسی گناہ کا کیونکہ جو گناہ بھی کوئی کرے گا اس کا مقصود ہر صورت میں حاصل ہے پھر حضرت اقدس نے فرمایا کہ اس تحقیق سے کوئی فائدہ نہیں ۔ بس گناہوں سے حفاظت کا اہتمام چاہیے ۔ چاہے وہ گناہ نفس کی طرف سے ہوں یا شیطان کی طرف ہے ۔ اگر اس کی تحقیق ہو بھی گئی کہ فلاں گناہ نفس کی طرف سے ہے اور فلاں شیطان کی طرف سے تو اس تحقیق سے فائدہ کیا ہوا ۔ ہمت تو ہر صورت میں گناہ سے بچنے کے لئے ضرور کرنا ہوگی سو ہمت کر کے ہر گناہ سے بچے اور اس تحقیق کے درپے نہ ہو ۔ معیار مذکور کو سن کر عرض کیا گیا کہ اس کے مطابق تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اکثر گناہ نفس ہی کے تقاضہ سے ہوتے ہیں کیونکہ اکثر یہی ہوتا ہے ۔ کہ ایک ہی گناہ کا بار بار تقاضا ہوتا ہے اور جب تک اس کا ارتکاب نہیں ہو جاتا اس کی طرف برابر میلان ہوتا رہتا ہے ۔ اس پر فرمایا کہ جی ہاں اصل منبع تو نفس ہی ہے کیونکہ شیطان کو بھی تو اس کے نفس ہی نے نافرمانی میں مبتلا کر رکھا ہے ۔ پھر فرمایا کہ حدیث میں ہے کہ ہر انسان کیساتھ ایک فرشتہ بھی رہتا ہے اور ایک شیطان بھی ۔ فرشتہ تو گناہ سے بچنے کی ترغیب دیتا ہے اور شیطان گناہ کے ارتکاب کی ترغیب دیتا ہے ۔ غرض دونوں میں مناظرہ ہوتاہے بعض کا قول ہے کہ جس طرف یہ خود ہوجاتا ہے اسی کو غلبہ ہو جاتا ہے لیکن میں ہر حال میں یہی کہتا ہوں کہ خواہ تحقیق کا کچھ ہی حاصل نکلے مگر حفاظت کا اہتمام ہر صورت میں چاہئے ۔ جب ہمارا مال چوری چلا گیا تو پھر اس سے ہمیں کیا اس گاؤں کا چور لے