ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
(ملفوظ 44) معاملات کی صفائی بڑی چیز ہے ایک سلسلہ میں فرمایا کہ نقل کرتے بھی صدمہ ہوتا ہے کہ ہمارے مولانا محمد یعقوب صاحب رحمتہ اللہ علیہ ایسے تو بے نظیر بزرگ اور پھر بھی ان کی تنخواہ کیا تھی صرف چالیس روپیہ ماہوار آج ایک نوآموز طالب علم بھی مشکل سے قبول کرتا ہے اور اگر تنخواہ کی کمی بھی منظور کرتا ہے تو اس طرح سے کہ اثر میں کمی نہ ہو چنانچہ ایک مدرسہ میں بوجہ قلت آمدنی مدرسین سے کہا گیا کہ اپنی تنخواہوں میں تخفیف منظور کرلیں ۔ صدر مدرس صاحب نے کہا کہ اس طرح تو تخفیف نہیں کروں گا ۔ میں تنخواہ تو پوری لوں گا لیکن جتنی تخفیف ضروری سمجھی جائے اتنی رقم اپنی طرف سے مدرسہ میں داخل کردیا کروں گا تاکہ نام تو رہے کہ تنخواہ اتنی ہے تو یہاں تک باتیں نظر میں آنے لگیں کہ چاہے نہیں تنخواہ کم ہوجائے لیکن شان ویسی ہی رہے اب تو اتنی تنخواہ کو کوئی خاطر میں بھی نہیں لاتا اور وہاں اس کی بھی بڑی قدر تھی وجہ کیا کہ وہ حضرات اپنے کو صاحب کمال ہی نہیں سمجھتے تھے اس واسطے صاحب مال ہونا نہیں چاہتے تھے ۔ غرض چونکہ مولانا کا کنبہ بہت بڑا تھا اس لئے خرچ میں بہت تنگی ہوتی تھی اور چونکہ وہاں صفائی اور سادگی بہت زیادہ تھی ۔ یہ گھر والوں کی شکایت بھی سب کے سامنے فرمایا کرتے تھے کہ کنبہ والے زیادہ طلبی کرتے ہیں میری چالیس روپیہ تو تنخواہ ہے اور ہر شخص یہی سمجھتا ہے اور کہتا ہے کہ چالیس روپیہ مجھے دیدو تو میں چالیس کی صرف ایک رقم کو چالیس چالیس کی اتنی ساری رقمیں کیسے بناسکتا ہوں پھر بطور تحدث بالنعمتہ کے فرمایا کہ اللہ اکبر ہمارے بزرگوں نے تو اس طرح بسر کیا ہے اور یہاں تو اللہ تعالیٰ نے نوابی کیا بادشاہ دے رکھی ہے اور قلب اور تنگی خدا کے فضل سے کہیں ارد گرد بھی نہیں حالانکہ نہ کوئی لیاقت ہے نہ کمال بس وہ جو مشہور ہے وہ حال ہے کہ اللہ میاں اپنے گدھوں کو بھی حلوا دے رکھا ہے اور اتنا دے رکھا ہے کہ بعض ڈپٹیوں کو بھی کئ کئی سو روپیہ قرض دے رکھے ہیں