ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
سے کس بات میں کم ہیں ۔ یہ تو کبر ہے ۔ یہ احتمال ہونا چاہئے تھا کہ ممکن ہے کوئی فارق ہو ۔ کم سے کم احتمال تو پیدا ہونا چاہئے تھا کہ معلوم نہیں کیا مصلحت ہے کیا نہیں مگر آج کل غباوت حد سے زیادہ ہے کچھ ذہن ہی میں نہیں آتا ۔ آدمی جس کا معتقد ہو اس کی اجازت تو لینا چاہئے ۔ اور اگر وہ اجازت لیتے تو میں دیدیتا اور اتنا ناگوار نہ ہوتا ۔ ناگواری تو اس بات کی ہے کہ اپنے اختیارات سے مجھے مغلوب کرنا چاہتے ہیں ورنہ مجھے تو از خود خیال رہتا ہے یا خالی الزہن ہوکر ابتداء ہی سے اوروں کیساتھ آنا شروع کر دیتے جب سے آئے ہیں کئی دن تک تو اس وقت آئے نہیں پھر آج آئے تو گویا اپنے اختیار میں ہوا جب چاہئیں آئیں جب چاہئیں نہ آئیں بس یہ بات ناگوار ہوئی معاشرت کا سلیقہ ہی نہ رہا ۔ ماشاءاللہ یہ عالم ٖاضل ہیں لیکن پھر بھی ایسے ضروری امور ذہن میں نہیں آتے ۔ ( ملفوظ 53 ) حشو عبارت سے مضمون کی وقعت کم ہو جاتی ہے ایک رسالہ کی سیدھی سادی تمید لکھ کر ایک خادم کو دی جو اس کو مرتب کر رہے ہیں ۔ اور فرمایا کہ گو مختصر ہے لیکن اس میں سب ضروری باتیں آگئیں ۔ حشو و زوائد سے یار نگین عبارت سے مضمون کی وقعت جاتی رہتی ہے اور اس کا وزن کم ہوجاتا ہے ۔ مضمون ایسا ہونا چاہئے جس کو آج کل کی اصطلاح میں ٹھوس کہتے ہیں یا میرےی اصطلاح میں یوں کئے کہ سنگین ہو رنگین نہ ہو ۔ عرض کیا گیا کہ کلام مجید میں بھی مقفے عبارت ہے فرمایا کہ بہت جگہ قافیہ چھوڑ دیا ہے حالانکہ اللہ تعالٰی قادر تھے بلکہ بعض مقامات پر تو قافیہ آسانی سے لایا جاسکتا تھا ۔ پھر بھی چونکہ اس قافیہ کے لانے سے معنے میں وہ زور نہ رہتا اس کو چھوڑ دیا گیا ۔ سورہق ہی میں جا بجادال کے قافیے ہیں لیکن بہت جگہ قافیہ چھوڑ دیا ہے اسی طرح قرآن میں باہم آیات میں ظاہری ربط کا بھی التزام چھوڑ دیا گیا ہے اور در حقیقت ربط کی ضرورت بھی نہیں کیونکہ قرآن کا جو اصل مقصود ہے وہ ربط پر موقوف نہیں اس لئے بلا التزام ربط اس میں کام کی باتیں جمع کر دی ہیں گو میں