ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
ہمہ آہوان صحرا سر خود نہادہ برکف بامید آنکہ روزے بہ شکار خواہی آمد دیکھئے جو لایعقل جانور تھے ان کو بھی حضور سے اتنی محبت تھی تو پھر حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کی محبت اور جان نثاری کا تو کیا ٹھکانا ہوگا لیکن پھر بھی حضور نے ان کی اتنی رعایت فرمائی کہ سو جانے کے محض احتمال پر بھی سلام زور سے پکار کرنہ فرمایا اور اس کا تو احتمال ہی نہیں ہوسکتا تھا کہ آج کل کے پیروں کی طرح آتے ہی حکومت شروع کردیتے کہ بستر بچھاؤ ۔ پانی لاؤ ۔ یہ کرو وہ کرو ۔ توبہ ۔ نیز حضور کے پاس جو بکریاں تھیں حضور نے ان مہمانوں سے فرما دیا تھا کہ کھانے کے وقت بے تکلف ان کا دودھ دوہ کر پی لیا کرو ۔ اس کا انتظار نہ کیا کرو کہ جب میں خود آجاؤں اس وقت پیو اور خود پی کر میرے لئے کچھ رکھ چھوڑا کرو ۔ جب میں آٰیا کروں گا خود پی لیا کروں گا ۔ دیکھئے حضور نے اپنے اس برتاؤ سے ہم لوگوں کو مہمانی کا طریقہ سکھلایا چنانچہ حسب ارشاد حضور وہ حضرات حضور سے پہلے ہی دودھ پی لیتے اور حضور بعد عشاء کے جب تشریف لاتے بلا ان کو جگائے بطور خود نوش فرماتے اب اگر کوئی خادم ایسا کرے تو یہ اس کے لئے خوش اخلاقی کے خلاف سمجھا جائے اور اس کو بے ادبی قرار دیا جائے ۔ ارے کس کی بے ادبی ۔ محبت ہونی چاہئے جب محبوب کی خوشی اسی میں تھی تو ادب یہی تھا جیسا کہ ان حضرات نے کیا ۔ اب تو لوگوں نے تکلف کا نام ادب رکھ چھوڑا ہے جو محض صورت ادب ہے حقیقت ادب نہیں ۔ حقیقی ادب تو راحت پہنچانا اور دل خوش کرنا ہے ۔ حضرت مقداد ایک دن کا لطیفہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار حضور کو بعد عشاء تشریف لانے میں کسی وجہ سے دیر ہوگئی تو شیطان نے ان حضرات کے دل میں یہ وسوسہ ڈالا کہ غالبا کسی نے حضور کی دعوت کردی کھانا تناول فرما کر تشریف لائیں گے ۔ اب حاجت حضور کے واسطے دودھ رکھ چھوڑنے کی نہیں ۔ کیوں خواہ مخواہ دودھ بچائیں ۔ آج حضور کا حصہ بھی خود ہی پی لینا چاہئے چنانچہ جتنا دودھ بکریوں نے دیا تھا وہ سارا خود ہی پی