ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
طبعیہ اگر طبیعت سلیم ہو تو وہ خود تجویز کرلے گی کہ کس موقع پر کیا کرنا چاہئے اور فقہاء تو ایسے اوقات میں سلام کرنے کو صرف مکروہ ہی کہتے ہیں لیکن صوفیہ بعض مواقع کے سلام کو مکروہ سے آگے بڑھ کر موجب وبال بتلاتے ہیں چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ من شغل مشغولا مع اللہ ادرکہ المقت فی الوقت یعنی جو مشغول مع اللہ کو اپنی طرف مشغول کرے اس میں بات کرنا اور سلام کرنا بھی داخل ہوگیا اس پر فورا ہی غضب الہی نازل ہوتا ہے ۔ جناب رسول اللہ صلی اللہ وسلم سے زیادہ کون محبوب ہوگا اور حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم سے زیادہ کون محب اور جان نثار ہوگا مگر حضور پھر بھی ان کی اس قدر رعایت فرماتے تھے کہ جس کی انتہا نہیں ۔ چنانچہ حضرت مقداد خود اپنا ایک چشم دید واقعہ حضور کے برتاؤ کا نقل فرماتے ہیں ۔ یہ روایت صحیح مسلم میں ہے کہ ایک بار کچھ فاقہ زدہ مہمان حاضر خدمت ہوئے ان کو حضور نے صحابہ میں تقسیم کر دیا اور ان میں سے چند مہمان خود اپنے حصہ میں بھی آپ نے لے لئے انہیں میں حضرت مقداد تھے ۔ ان مہمانوں کے ٹھہرنے کے لئے حضور نے اپنے دولت خانہ ہی کا ایک حصہ دے رکھا تھا ۔ حضور بعض اوقات عشاء کے بعد دیر میں تشریف لاتے اور مہمانوں کو لیٹا ہوا پاتے تو اس وقت یہ احتمال ہوتا کہ شاید آنکھ لگ گئی ہو ۔ اس لئے حضور سلام تو کرتے مگر اتنا آہستہ کہ اگر جاگتے ہوں تو سن لیں اور سوتے ہوں تو آنکھ نہ کھلے ۔ اس طرح سلام کا حق بھی ادا فرما دیتے اور راحت رسانی کا بھی تو دیکھئے حضور سلام کرنے میں بھی اتنی رعایت فرماتے تھے ۔ حالانکہ سلام کیا اگر آپ نعوذ باللہ ان کی ساتھ سخت سے سخت تکلیف کا معاملہ فرماتے تو صحابہ اس کو بھی خوشی سے گوارا کرلیتے اور بزبان حال یہ کہتے سر بوقت ذبح اپنا اسکے زیر پائے ہے کیا نصیب اللہ اکبر لوٹنے کی جائے ہے کیوں نہ ہو حضور کی محبوبیت ہی ایسی تھی اور بھلا آدمیوں کی نظر میں تو