ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
سبب یہی ہے کہ لوگ تخمینیات سمجھ لیتے ہیں ۔ دوسری غلطی یہ ہے کہ مصافحہ کو ضروری سمجھتے ہیں ۔ حالانکہ وہ اتنا ضروری نہیں ۔ کیا کہوں جب قوت تھی تو چار چار ہزار کے مجمع میں کوئی مقبول بندہ ہو اور اس کے ہاتھ میں ہاتھ دینے سے شاید میری نجات ہو جائے اب آپ ہی انصاف کیجئے کہ جس کا یہ اعتقاد ہو کیا وہ مصافحہ سے گھبرائے گا مگر یہ جب ہے کہ جب ہو پہلے تحمل ہو پہلے تحمل تھا اب تحمل نہیں ۔ میں نے تو بڑے بڑے مجمع سے مصافحہ کیا ہے اور یہ خدا تعالٰی کا خاص فضل تھا کہ کتنا ہی بڑا مجمع ہوا میری آواز اتنی ہی دور پہنچ گئی ۔ اب بحالت ضعف بلا ضرورت مصافحہ کرنے کا تحمل نہیں ۔ متنبی تو کہتا ہے ع واسکت کی مالا یکون جواب یعنی میں سلام سے خاموش رہتا ہوں تاکہ میرے محبوب کو جواب نہ دینا پڑے یعنی مجھ کو اس کی اتنی تکلیف بھی گوار نہیں ۔ خیر یہ تو شاعر کا قول ہے جو حجت نہیں ۔ فقہاء کا قول تو حجت ہے ۔ انہوں نے تصریح کی ہے کہ فلاں فلاں مواقع پر سلام نہ کیا جائے ۔ حلانکہ سلام فی نفسہ مصافحہ سے زیادہ ضروری ہے ۔ جو مواقع ترک سلام کے ان حضرات نے تجویز کئے ہیں ان میں یہ دیکھنا چاہئے کہ امر مشترک کیا ہے سو اکثر میں امر مشترک یہی ہے کہ جس موقع پر سلام کرنے سے قلب مشوش ہوجائے اس موقع پر سلام نہ کرو اور کو ایسے موقع پر کسی سلام کیا تو ان حضرات نے اس کی بھی تصریح کردی ہے کہ اس کا جواب واجب نہیں ۔ انہیں مواقع میں سے یہ بھی ہے کہ جب کوئی پانی پی رہاہو یا کھانا کھا رہا ہو تو اس وقت سلام نہ کرو ۔ اب دیکھئے یہ بھی کوئی بہت شغل تھا لیکن اتنی سی تشویش سے بھی دوسرے کو بچانے کا حکم فرمایا گیا چنانچہ ایسے مواقع پر اگر کوئی سلام کرے تو اس کو فقہاء مکروہ کہتے ہیں ۔ اسی طرح اگر کوئی وظیفہ پڑھنا ہو یا قرآن پڑھتا ہو تو ایسی حالت میں بھی ان کا فتوٰی ہے کہ سلام نہ کرو اور یہ امور ایسے ہیں کہ ان کے لئے تعلیم کی حاجت نہیں کیونکہ یہ امور