ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
گی لیکن ان سے محبت ایسی ہوگئی تھی کہ میں نے پھر بھی ان کی دعوت منظور کرلی اور دل میں سوچ لیا کہ خیر ایک دن تراویح باجماعت نہ سہی یا خاص طور سے کوشش کر کے جلدی رخصت ہولوں گا اور وقت پر پہنچ جاؤں گا ۔ غرض مغرب پڑھ کر میں ان کیسا تھ روانہ ہوا ۔ وہ بوڑھے آدمی تھے آہستہ آہستہ چل رہے تھے میں نے دل میں کہا کہ آج اس گنوار نے مارا ۔ خیر اسی طرح چلتے چلتے شہر پناہ سے باہر نکل رہے تھے اور اب ان کا مکسن بہت دور نہ رہا لیکن پھر بھی وہاں پہنچتے پہنچتے خوب جھٹ پٹا ہوگیا ۔ گھر پہنچتے ہی انہوں نے آواز دی یا ولد یا ولد اس پر ایک نوجوان لڑکا باہر نکلا اس سے کہا کہ کھچڑی پکاؤ ۔ میں نے دل میں کہا کہ لے بھائی ابھی کھانا بھی تیار نہیں اور پکوا بھی رہے ہیں چاول کی کھچڑی اور چاول مجھے مضر ہیں ۔ بہر حال کچھڑی پکی اور اس کے پکنے میں اچھی خاصی دیر ہوگئی ۔ پھر جب کھانے کے لئے بیٹھے تو میں جلدی جلدی کھانے لگا اس خیال سے کہ جماعت تو خیر کیا ملے گی شاید مسجد نبوی کا دروازہ کھلا ہوا مل جائے اورمیں اپنی ہی نماز وہاں پڑھ لوں ۔ جب میں نے وہاں سے رخصت ہونا چاہا تو بڑے میاں نے کہا کہ نہیں میں بھی پہنچانے جاؤں گا ۔ میں نے دل میں کہا کہ لیجئے اب پہنچنے میں اور بھی دیر یوگی مگر خیر تھوڑی دور چلنے کے بعد ان کے ایک اور مہمان مل گئے اور انہوں نے مجھ کو وہیں سے رخصت کردیا ۔ میں نے غنیمت سمجھا پھر میں جلدی جلدی چل کر سیدھا مسجد نبوی پہنچا دیکھا کہ دروازہ کھلا ہوا تھا لیکن سناٹا تھا صرف ایک شخص ایک طرف بیٹھا کچھ کھا رہا تھا میں نے سمجھا کہ لوگ تراویح سے فارغ ہوکر چلے گئے ہیں میں نے اس شخص سے جو کچھ کھا رہا تھا پوچھا کہ بھائی تراویح ہو چکیں اس نے کہا انت مجنوں یہ سن کر مجھے تعجب ہوا کہ یہ مجھے مجنوں کیوں کہہ رہا ہے لیکن پھر جو غور کرتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ مغرب کا وقت ہے اور وہ شخص افطاری کھا رہا تھا اور لوگ مغرب کی نماز پڑھ کر اپنے اپنے گھر کھانا کھانے چلے گئے تھے ۔ مجھے حیرت ہوگئی کہ اتنی رات گئے تو میں پہنچا اور پھر بھی یہاں ابھی مغرب ہی کا وقت ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ بدو کوئی بزرگ اور صاحب