ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
سب سے پہلے اس نے کہا الفاتحہ علی النبی یعنی حضور کی روح مبارک کو ثواب پہنچانے کے لئے فاتحہ پڑھو ۔ چنانچہ سب لوگ فاتحہ پڑھنے لگے اسی طرح جب دوسرا شخص اس تقریر کا جواب دیتا ہے تو وہ بھی پہلے ہی کہتا ہے الفاتحہ علی النبی ۔ غرض کسی شخص کی تقریر اس سے خالی نہیں ہوتی ۔ یہ تو وہاں کے جملوں کا حال ہے جو شاید نماز بھی نہ پڑھتے ہوں ۔ یہ دونوں واقعے تو دیکھے ہوئے ہیں اور ایک واقعہ مولوی سعید صاحب کیرانوی بیان کرتے ہیں کہ جب بدو طواف کرنے آتے تو بعد طواف ملتزم پر کھڑے ہوکر کہتے کہ اے اللہ ہمارے گناہ بخش دے ۔ پھر خود ہی کہتے کہ نہیں کیوں نہیں بخشے گا ضرور بخشے گا کیا وجہ کہ نہ بخشے ۔ انہیں اللہ تعالی پر اتنا بھروسہ اور ناز ہے ۔ اب دل میں ایمان رچا ہوا نہیں ہے تو یہ کون چیز بولتی ہے ۔ مولوی مرتضی حسن صاحب چاند پوری کے بڑے بھائی مولوی مجتبٰی حسن صاحب نے جو میرے ہم سبق تھے مجھ سے ایک حکایت بیان کی وہ کہتے تھے کہ مولوی عبدالحق صاحب مہاجر مکی جو شیخ الدلائل تھے وہ ان سے کہتے تھے کہ میں جب مدینہ طیبہ حاضر ہوا تو ایک بدوی بزرگ کو روز دیکھتا کہ روضہ شریف کے قریب بیٹھے ہوئے روضہ شریف کو تکا کرتے نہ بہت نوافل پڑھتے تھے نہ کچھ اور پڑھتے تھے بس بیٹھے روضہ شریف کو تکا کرتے تھے ۔ مجھے ان کے ساتھ محبت معلوم ہوئی اور کبھی کبھی ان کے پاس جاکر بیٹھنے لگا ۔ رمضان شریف کا زمانہ تھا ایک دن انہوں نے مجھ سے کہا کہ آج تمہاری دعوت ہے میں نے عذر کیا کئی وجہ سے اول یہ کہ بیچارے غریب ہیں ان کا خواہ مخواہ خرچ ہوگا ۔ دوسرے یہ غالبا چاول کھلائیں گے اور میرے پیٹ میں پھوڑا تھا چاول نقصان کرتے ۔ تیسرے وہ جنگل کے رہنے والے تھے رات کو لے جائیں گے ۔ بوڑھے آدمی ہیں تیز چل نہ سکیں گے واپسی میں دیر ہوگی ۔ مسجد نبوی میں تراویح بھی نہ مل سکیں گے ۔ چنانچہ میں نے ان سے یہ عذر کئے لیکن انہوں نے کہا کہ نہیں نہیں دیر نہیں ہوگی مجھے ان کے اس کہنے پر بھی غالب احتمال یہی رہا کہ ان حالات میں دیر ضرور ہوگی اور مجھے تراویح نہ مل سکیں