ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
ایک صاحب نے ایک میم کا واقعہ نقل کیا کہ اس نے ادنی ادنی اور ٹوٹی پھوٹی چیزوں کو بھی گھر کا سامان فروخت کرتے وقت نیلام پر چڑھا دیا اور دام کھرے کر لئے ۔ اس پر فرمایا کہ مسلمانوں کے یہاں اتنی اور بات ہے کہ وہ اپنی بعض چیزیں مفت بھی دیدیتے ہیں اور یہ مفت دینا بھی ہمیشہ اس نیت سے نہیں کہ ثواب ہو ہی بلکہ محض تطییب قلب اپنا اور اپنے کسی متعلق کا مقصود ہوتا ہے اور کسی مومن کا تطییب قلب یہ خود عبادت ہے چاہئے بقصد عبادت نہ ہو ۔ تطییب قلب بہر حال موجب اجر ہے ۔ اس کی ایک حدیث سے مجھے بڑی تائید ملی ۔ حضرت ابو موسی رضہ اشعری ایک بار جہر سے تلاوت کر رہے تھے ۔ حضور سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم تک آواز پہنچ رہی تھی اور ان کو اس کا علم نہ تھا جب وہ حاضر ہوئے تو آپ نے ان کی خوش آواز کی تعریف فرمائی اور فرمایا ۔ لقد اوتیت مزمارا من مزا میرا آل داؤد یعنی اللہ تعالٰی نے تم کو ایسی خوش آواز دی ہے جیسی داؤد علیہ السلام کو عطا فرمائی تھی حضرت ابو موسی نے عرض کیا کہ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ حضور سن رہے ہیں تو لجرتہ تجیرا یعنی میں اور زیادہ سنوار کر پڑھتا ۔ اس حدیث سے میں نے یہ مسئلہ سمجھا کہ اگر کوئی دہن کا کام مخلوق کی رضا کے لئےط کیا جائے تو ایسا کرنا ہر حال میں ریانہ ہوگا بلکہ یہ دیکھا جائے گا کہ اس مخلوق کے ساتھ علاقہ کی وجہ کیا ہے ۔ دین یا دنیا ۔ اگر علاقہ کا سبب دین ہے تو وہ ریا نہیں اور اگر دنیا ہے تو ریا ہے جیسا کہ اس حدیث کے واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے چونکہ حضور کا خوش کرنا دین تھا کیونکہ حضور سے جو تعلق تھا وہ دین ہی کی وجہ سے تھا اس لئے حضور کو خوش کرنے کے لئے سنوار سنوار کر قرآن پڑھنا ثواب تھا ریا نہ تھا ۔ مجھے اس کے قبل اس معمول کے متعلق بڑا تردد تھا کہ لوگ قاریوں سے رکوع سنانے کی فرمائش کرتے ہیں اور وہ خوب سنوار سنوار کر خوش آواز کے ساتھ پڑھتے ہیں تاکہ سامعین کا دل خوش ہو اس وقت عموما ثواب کی بھی نیت نہیں ہوتی ۔ مجھے اس کے متعلق سخت تردد تھا کہ آپا یہ جائز بھی ہے یا ناجائز اور یہ