ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
ریا تو نہیں کیونکہ ظاہر ہے کہ محض سامعین کی رضا کے لئے ایسا کیا جاتا ہے ۔ مگر اس حدیث سے یہ معلوم ہوگیا کہ اگر اس سے مقصود مال اور جاہ ہوں کہ خوش ہوکر سننے والا روپیہ دیدے گا یا معتقد ہوجائے گا تب تو یہ ریا ہے اور ناجائز ہے اور اگر یہ نیت ہوکہ یہ خوش ہوگا تو یہ ریا نہ ہوگا کیونکہ اس کا دل خوش کرنا بھی دین کی خدمت ہے اور اس کے خوش کرنے سے کا خوش کرنا بھی دین کی خدمت ہے اور اس کے خوش کرنے سے مقصود خدا کا خوش کرنا ہے ۔ غرض اس حدیث سے پوری تائید مل گئی اس معمول کی اور اس روز سے پھر مجھے اس کے ناجائز ہونے کا شبہ نہیں ہوا ۔ تطییب قلب کے بھی مقصود بالذات ہونے پر فرمایا کی میں نے بریلی کے جنٹ انگریز سے یہی کہا تھا جب اس نے مجھ سے پوچھا کہ تفسیر لکھنے پر کتنا روپیہ ملا ۔ یہ لوگ تو عبدالدنیا اور عبدالدینار ہی ہوتے ہیں ۔ جب میں نے کہا کہ کچھ بھی روپیہ نہیں ملا تو آپ کہتے ہیں کہ پھر اتنی محنت کرنے سے فائدہ ہی کیا ہوا ۔ میں نے اس سے کہا کہ دو فائدے ہوئے اس وقت تو میں نے اس کی سمجھ کے مطابق سہل عنوان سے جواب دیا تھا لیکن اس وقت اپنے لفظوں میں اس جواب کو نقل کرتا ہوں ۔ میں نے کہا کہ ایک فائدہ تو عاجل ہوا اور ایک آجل ۔ عاجل فائدہ تو یہ ہوا کہ اپنے بھائیوں کے ہاتھوں میں اپنی تفسیر دیکھ کر اور اس سے ان کو منتفع ہوتا دیکھ کر میرا دل خوش ہوتا ہے اور دل کا خوش ہوتا ہے اور دل کا خوش ہونا اتنا بڑا فائدہ ہے کہ تمام اسباب عیش کا حاصل یہی ہے ۔ دوسرا فائدہ آجل ہے ۔ چونکہ مجھے یہ خبر نہ تھی کہ یہ انگریز آخرت کا قائل ہے یا نہیں کیونکہ آج کل کے اکثر قوم کے عیسائی عقیدہ میں دھری ہیں اس لئے میں نے نفع آجل کی اس طرح تقریر کی کہ ہم لوگ علاوہ اس زندگی کے ایک اور شندگی کے بھی قائل ہیں جو مرنے کے بعد ہوگی وہاں حق تعالٰی سے سابقہ ہوگا جو احکم الحاکمین ہیں ۔ وہ خوش ہوں گے اور حکام کی خوشنودی خود مستقل فائدہ ہے میں نے دیکھا کہ اس تقریر کا اس پر ایک خاص اثر ہوا ۔ اور ہمارے مسلمان بھائی یورپین مزاق کے ہوتے تو استہزاء کرتے کیونکہ ایسے مسلمان انگریزی عقیدے کے ہیں وہ تو دین کی محبت کوع جنون سے تعبیر