ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
حد اوسط ہوتا حالانکہ اسماع حد اوسط نہیں اس لئے کہ وہ مکرر نہیں کیونکہ پہلا اسماع اور ہے اور دوسرا اسماع اور ہے لہذا تولی کو جو لازم کا لازم سمجھا گیا اور اس بناء علم خیر کے لئے تولی کو لازم قرار دیا گیا خود یہی غلط ہوا پس حق تعالٰی کے علم کے متعلق واقعہ کے غیر مطابق ہونے کا شبہ ہوا تھا وہ رفع ہوگیا اب آیت کا صحیح مطلب یہ ہوا کہ اگر حق تعالٰی ان کے اندر کوئی خیر دیکھتے تو ان کو باسماع قبول سناتے مگر جبکہ حق تعالٰی کے علم میں ان کے اندر کوئی خیر نہیں ہے ایسی حالت میں اگر ان کو نصیحت سنادیں جو اسماع قبول نہ ہوگا کیونکہ یہ اسماع حالت عدم خیر مین ہوگا تو وہ لوگ اس کو ہرگز قبول نہ کریں گے بلکہ تولی اور اعراض کریں گے ۔ اسی طرح قرآن کی آیت پر ایک دوسرا شبہ اور اس کا جواب یاد آیا اس کا واقعہ یہ ہے کہ جنگ بلقان کے زمانہ میں جب ایڈ ریا نوپل پر کفار کا قبضہ ہوا تو ہندوستان کے مسلمانوں کو بہت پریشانی ہوئی اور طرح طرح کے خیالات فاسدہ آنے لگے حتی کہ بعض کو تو نصوص پر کچھ شہبات بھی پیدا ہوگئے تھے یہ حالت دیکھ کر دہلی کے مسلمانوں نے ایک بڑا جلسہ کے اندر مدعو کیا اور صدر بنایا اور لوگوں کے عقائد کی اصلاح کی نیت سے مجھ سے وعظ کی درخواست کی چنانچہ میری اس جلسہ میں تقریر ہوئی جب وعظ ہوچکا تو بآاواز بلند میں نے کہا کہ اگر کسی کو کوئی شبہ ہویا کسی کو کچھ دریافت کرنا ہوتو دریافت کر لے تاکہ بعد میں کوئی شخص یہ نہ کہے کہ مجھ کو یہ پوچھنا تھا اور نہ پوچھ سکا ۔ یہ سن کر ایک ولایتی منتہی طالب علم کھڑے ہوئے یہ لوگ معقول زیادہ پڑھتے ہیں قرائن سے معلوم ہوتا تھا کہ معقولی ہیں کہنے لگے کہ قرآن شریف میں وعدہ ہے ولقد کتبنا فی الزبور من بعد الذکر ان الارض یرثھا عبادی الصالحون مگر باوجود اس کے پھر ایڈ ریا نوپل پر کفار کا قبضہ ہوگیا تو اس کی کیا وجہ میں نے کہا کہ مولانا یہ تو بتلایئے کہ موجہات مین سے یہ کونسا قضیہ ہے بس میرے اس کہنے پر ہی وہ خاموش ہوکر بیٹھ گئے پھر میں نے ہی خود ان سے کہا کہ آپ کو جو یہ شبہ ہوا کہ یہ قضیہ ضرور یہ یاد ائمہ ہے تو اس کی کیا دلیل ہے