ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
ممکن ہے کہ مطلقہ عامہ ہو جس کا ایک بار بھی وقوع کافی ہوتا ہے جو چکا اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہوگیا اس کے بعد پھر کوئی شخص نہیں کھڑا ہوا ۔ تو دیکھئے چونکہ یہ طالب علم علوم درسیہ پڑھے ہوئے تھے اور مبادی ان کے ذہن میں تھے اس لئے میرے ایک لفظ سے ان کا شبہ حل ہوگیا اسی طرح ایک اور مولوی صاحب کو قرآن شریف کی ایک آیت کے متعلق شبہ تھا وہ یہ کہ آٹھویں پارہ میں ارشاد ہے سیقول الذین اشرکوا لوشاء اللہ ماآشرکنا ولا آباءنا ولا حرمنا من شیء کذلک الذین من قبلہم حتی ذاقو باسنا قل ھل عندکم من علم فتخر جوہ لنا ان تتبعون الاالظن وان انتم الا تخرصون اس آیت میں حق تعالٰٰی نے اول کفار مشرکین کا مقولہ نقل فرمایا ہے کہ اگر حق تعالٰٰی یہ چاہتے کہ ہم سے شرک کا وقوع نہ ہو ہم شرک نہ کرتے (مگر جب ہم سے شرک کا وقوع ہوا تو معلوم ہوا کہ حق تعالٰی ہی نے چاہا ہے کہ ہم سے شرک ہو تو پھر ہم پر کیوں ملامت کی جاتی ہے کیونکہ ہم نے وہ کام کیا ہے جو حق تعالٰی کا چاہا ہوا تھا ) پھر اس مقولہ کے نقل فرمانے کے بعد حق تعالٰی نے کذلک لعلکم تخرصون تک کفار کے اس مقولہ کارد فرمایا ہے اور ساتویں پارہ میں ہے ولوشاء اللہ مااشرکوا یعنی حق تعالٰٰی حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی خطاب فرماتے ہیں کہ ان مشرکین کی حالت پر اتنا رنج و غم نہ کیجئے کیونکہ یہ جو کچھ کر رہے ہیں ہماری مشیت سے کررہے ہیں اگر ہم چاہتے کہ یہ شرک نہ کریں تو یہ شرک نہ کرتے تو آٹھوین پارہ میں جو آیت ہے وہاں تو شرک کے متعلق مشیت کی نفی فرمائی ہے اور اس دوسری آیت میں اس مشیت کا اثبات فرما رہے ہیں تو ان دونوں آیتوں میں تعارض معلوم ہوتا ہے وہ مولوی صاحب مجھ سےاس کے جواب کے طالب ہوئے اب وہ لوگ جو بلا علوم درسیہ پڑھے ہوئے محض ترجمہ قرآن کو بطور خود دیکھ کر یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ہم نے قرآن کو سمجھ لیا ذرا اس شبہ کا تو جواب دیں میں نے یہ جواب دیا کہ دونوں آیتوں میں کوئی تعارض نہیں کیونکہ تعارض تو جب ہوتا کہ جس مشیت کی ایک جگہ