ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
ان واقعات کو ہم کرامت کے باب میں درج کردیں تو کیا حرج ہے میں نے کہا کہ چونکہ ایسے واقعات کے اندر مجھ کو دوسرا بھی احتمال ہوتا ہے اس لئے میں ایسے واقعات کو بھی کرامت کے عنوان سے درج کرانا نہیں چاہتا البتہ تمہارا دل چاہے تو ایسے واقعات کو سوانح میں انعامات الہیہ کے عنوان کے تحت میں درج کر سکتے ہوتو میرایہ جواب ان کی سمجھ میں آیا اور اس پر انہوں نے یہ شبہ پیش کیا کہ کرامت بھی تو حق تعالٰی کا انعام ہی ہوتی ہے پھر کرامت میں انعام میں کیا فرق ہوا ۔ لہذا ہماری درخواست ہے کہ ان واقعات کو کرامت ہی کے عنوان کے تحت میں درج کرنے کی اجازت دی جائے تو پھر میں نے ان کو علوم درسیہ کے قواعد کے ذریعہ سمجھایا اور یہ جواب دیا کہ ملزوم تو لازم کے لئے مستلزم ہوتا ہے مگر لازم ملزوم کے لئے مستلزم نہیں ہوتا جیسے آگ تو حرارت کے وجود کو مستلزم ہے مگر حرارت اگ کے وجود کو مستلزم نہیں پس ہر کرامت کا تو انعام ہونا لازم ہے مگر ہر انعام کا کرامت ہونا لازم نہیں لہذا ہر انعام کو کرامت میں کیسے داخل کرسکتے ہیں تب وہ خاموش ہوئے ۔ اب میں بطور مثال کے ایک شبہ بیان کرتا ہوں جو علو درسیہ سے بے بہرہ ہونے کی وجہ سے خود قرآن کی ایک آیت کے متعلق ہوتا ہے وہ یہ کہ نویں پارہ میں ارشاد ہوتا ہے ولو علم اللہ فیھم خیرا لا سمعھم لتولو وھم معرضون اسی آیت میں کفار کی مزمت ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ علم خیر کے لئے اسماع لازم ہے اور اسماع کے لئے تولی ل لازم ہے اور قاعدہ عقلیہ ہے کہ لازم کا لازم لازم ہوا کرتا ہے تو علم خیر کے لئے تولی لازم ہوئی جس کا مطلب اس قاعدہ مذکورہ کی بناء پر یہ ہوا کہ اگر حق رتعالٰٰی کو ان کفار کے متعلق خیر اور بھلائی کا علم ہوتا تو ان کفار ست تولی اور اعتراض کا صدور ہوتا اور اس کا استحالہ ظاہر ہے کیونکہ اس سے حق تعالٰی کے علم کا واقع کے مطابق نہ ہونا لازم آتا ہے جو محال ہے اب اس شبہ کا رفع کرنا اس شخص کے کے مطابق نہ ہونا آتا ہے جو محال ہے اب اس شبہ کا رفع کرنا اس شخص کے لئے کو علوم درسیہ ست واقف نہ ہو بہت دشوار ہے اور جو علوم درسیہ پڑھ چکا ہو اس کے لئے ایک اشارہ کافی ہے وہ یہ کہ شبہ تو جب صحیح ہوتا کہ یہاں اسماع