ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
کے متعلق اس قصد پر بھی عمل دشوار معلوم ہوتا ہے ارشاد فرمایا کہ یہ مقصود ہونا چاہئے کہ قرآن وحدیث کا فہیم پیدا ہوجائے گا کیونکہ قرآن وحدیث کے اندر جو تدقیقات ہیں وہ بغیر مبادی کے سمجھ میں نہیں آتی ہیں اور مبادی بدون تحصیل درسیات کے سمجھ میں نہیں آسکتے تو قرآن وحدیث کے بہت سے دقائق بلا علوم درسیہ کے سمجھ میں نہیں آسکتے ۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ قرآن وحدیث کے دو حصے ہیں ایک حصہ تو نفس احکام اور اس کے متعلق تذکرو تذکرکر کا ہے وہ تو آسان ہے اور نصوص کے اندر جا بجا جو قرآن کو آسان فرمایا گیا ہے اس سے مراد یہی حصہ ہے چنانچہ ایک مقام پر ارشاد ہے ولقد یسرنا الفرآن للذکر فھل من مدکر دوسری جگہ فرماتے ہیں وانما یسرناہ بلسانک لتبشربھ المتقین وتنذر بھ قوما لدا باقی رہا دوسرا حصہ جو استدلالات اور استنباطات کا ہے وہ دقیق ہے اب رہا یہ شبہ کہ جب قرآن وحدیث کا سمجھنا بلا علوم درسیہ کے دشوار ہے تو صحابہ نے قرآن وحدیث کو کیونکہ یہ علوم درسیہ اس زمانہ میں تو مدون نہ تھے نہ ان کی تحصیل معتاد بھی تو جواب اس کا یہ ہے کہ صحابہ کی طبائع سلیم تھیں اس لئے ان کو قرآن وحدیث کے اندر ایسے شہبات ہی پیدا نہ ہوتے اور مقاصد کے سمجھنے کے لئے ان کو مبادی کی تحصیل کی ضرورت ہی نہ ہوتی تھی اس لئے قرآن وحدیث کو بلا علوم درسیہ بخوبی سمجھ لیتے تھے بخلاف آج کل کے لوگوں کے کہ وہ قرآن وحدیث کو تو بلا علوم درسیہ کے کیا سمجھتے ۔ معمولی معاملات وواقعات روز مرہ کے دقائق کا بھی بلا علوم درسیہ کے سمجھنا ان کو دشوار ہی ہوجاتا ہے چنانچہ میں اس کی تائید میں ایک تازہ واقعہ بیان کرتا ہوں کہ آپ کو تو معلوم ہے کہ جب میری سوانح لکھی جارہی تھی تو میں نے ہدایت کی تھی کہ اس سوانح میں میرے متعلق کشف وکرامت کا کوئی باب نہ تجویز کیا جاوے کیونکہ مجھ سے کوئی کشف وکرامت صادر ہی نہیں ہوئی اس پر بعض احباب نے کہا کہ مثلا فلاں فلاں واقعات ایسے ہیں جو بسند صحیح ثابت ہیں اور اگر وہ دوسروںکے متعلق ہوتے تو ان کو ضرر کشف وکرامت کے اندر داخل سمجھا جاتا تو اگر