ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
نے اس فرشتہ سے فرمایا نہیں مجھکو امید ہے کہ ان پشتوں سے ایسے لوگ پیدا ہوں جو اللہ تعالٰی کا تو حید کے ساتھ ذکر کریں ۔ باقی معاندانہ طرز اختیار کرنا اور دوسروں کو حقیر سمجھنا ایسے ہی شخص کا کام ہے جو اپنے عیوب سے غافل ہو ورنہ اگر دو شخصوں کو پھانسی کا حکم ہوگیا ہو اور آخر کار ان میں سے ایک کو رہائی ہو جاوے تو کیا وہ دوسرے مبتلا پر غصہ کرے گا کہ تو نے ایسا جرم کیوں کیا تھا کہ جس کے سبب سے تجھ کو پھانسی کا حکم ہوا کیونکہ وہ خود ہی بال بال بچا ہے اور آئندہ کا حال معلوم نہیں چنانچہ فلاں مقام پر ایک مسلمان کو چند گوجروں نے قتل کردیا تھا مقدمہ چلا اور وہ گوجر ہائی کورٹ سے رہا ہوگئے ۔ رہائی کی خبر سن کر بڑی خوشیاں منائی ڈھول ڈھڑکا لیکر خوب گانے بجائے کہ اتنے ہی میں نظرثانی کی درخواست گذری اور پھر پھانسی ہوگئی تو یہاں اپنی ہی حالت کی کیا خبر ہے کہ کل ہماری کیا حالت ہوگی جو دوسروں کو حقیر سمجھے اور تقویٰ طہارت تو الگ چیز ہے خود نفس ایمان بھی اپنے مستقل اپنے اختیار میں نہیں بس حق تعالٰی کا فضل ہے کہ اس نے ہم کو یہ دولت عطا فرما رکھی ہے لیکن وہ جب چاہیں سلب کرسکتے ہیں چنانچہ ایک بزرگ کا قصہ لکھا ہے جن کا نام ابو عبداللہ تھا بغداد کے اندر ان کی وجہ سے تیس خانقاہ ہیں آباد تھیں اور بڑے مشہور بزرگ تھے کہ وہ ایک بار مع اپنے مجمع کے چلے رہے تھے کسی گاؤں میں پہنچے سامنے ایک گر جا آٰیا جہاں عیسائی صلیب پرستی کر رہے تھے یہ اس گرجا کے پاس سے ہوکر گذرے پاس ہی ایک کنواں تھا اس پر کچھ عیسائی پانی بھر رہے تھے اس کنویں پر پہنچ کر ساتھیوں نے ان سے وضو کے لئے پانی مانگا اور وضو کر کے ان بزرگ کے لئے خدام پانی لیکر واپس ہوئے تو دیکھا کہ شیخ سر پکڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں خدام نے پانی پیش کیا تو کہا کہ تم لوگ جاؤ اب میں تمہارے کام کا نہیں رہا خدام نے عرض کیا کہ حضرت کیا ہوا فرمایا کہ میں ایک عیسائی لڑکی پر عاشق ہو کر عیسائی ہوگیا لوگوں کو بہت صدمہ ہوا اور مایوس ہوکر چلے گئے جب ایک مدت کے بعد اتفاق سے اس مقام پر واپس ہوئے اور اس مقام پر پہنچ کر چاہا کہ