ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
کے قائل ہیں اور علاوہ عقائد کے ہندوؤں کے تو مذہب میں یہ بات داخل ہے کہ باپ بیٹا ایک جگہ بیٹھ کر کھانا نہیں کھاسکتے اگر اتفاق ہے تو صرف مسلمانوں میں ہے چنانچہ میں نے اپنی تقریر میں کہا کہ خود ہمارے حضرت دام ظلہم العالی کا واقعہ ہے جو خود میرا مشاہدہ ہے کہ جب ایک صاحب نے حضرت کی خدمت میں ایک مولوی صاحب کا ذکر کیا کہ انہوں نے تو جناب کی ہمیشہ بڑی مخالفت کی تو بجائے ان کی شکایت کے یہ فرمایا کہ میں تو اب بھی یہی سمجھتا ہوں کہ شاید ان کی مخالفت کا منشا حب رسول ہو جس کی وجہ سے وہ اپنے اس فعل میں معذور ہوں اسی طرح مدرسہ دیوبند اتنا بڑا مدرسہ ہے کہ سارے ہندوستان میں اتنا بڑا کوئی مدرسہ نہیں مگر وہاں سے کبھی ایسے مضامین نہیں نکلتے جس کا سبب دوسرے مسلمانوں کیساتھ تعصب ہو میری اس تقریر کا لوگوں پر بہت اچھا اثر ہوا حتی کہ وہ مقرر صاحب بھی بہت پشیمان ہوئے اور اقرار کیا کہ مجھ سے غلطی ہوئی جو میں نے ایسی تقریر کی ۔ حضرت حکیم الامتہ دام ظلہم العالٰی نے اس واقعہ کو سن کر ارشاد فرمایا کہ آپ نے طرز جواب کا اختیار کیا یہی مناسب ہے معاندانہ طرز اختیار کرنے سے مخاطب کو اور وحشت ہوجاتی ہے اور وہ اس کو اپنی حقارت سمجھتا ہے اور بجائے اس کے کہ وہ اپنی غلطی تسلیم کرے اس کو عداوت اور اپنی غلطی پر اصرار ہوجاتا ہے لہذا جب تک کوئی خاص ضرورت نہ ہو خطاب کے اندر لب ولہجہ نرم اختیار کرنا چاہئے البتہ بات جو کہے وہ صاف کہے ۔ مولانا رومی فرماتے ہیں نرم گو لیکن مگو غیر صواب اب دیکھئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اصلاح کے طریقہ سے کون واقف ہوگا ۔ مگر دیکھ لیجئے کہ حضور کو مخلوق پر اگرچہ وہ کفار ہی کیوں نہ ہوں کتنی شفقت تھی چنانچہ جب کفار نے حضور کو سخت ایذاء پہنچائی تو عرض کیا گیا کہ ان پر لعنت کیجئے اور بد دعا کیجئے اور جبریل علیہ السلام پہاڑ کے فرشتہ کو لیکر نازل ہوئے تاکہ آپ سے اجازت لیکر وہ فرشتہ ان کفار کو ہلاک کردے آپ