ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
موافق ہے اس کی تقریر یہ ہے کہ فلاسفہ نے بلا اختلاف دعوٰی کیا ہے کہ دو مستقیم حرکتوں کے درمیان سکون ضروری ہے تو اس بناء پر اگر ایک رائی کا دانہ نیچے سے اوپر کو چلا اور اس کے محاذ میں ایک پہاڑ کا ٹکڑا اوپر سے گرا تو اب اس رائی کے دانہ کو پہاڑ سے ٹکرانے کے وقت دوسری حرکت ہوگی یعنی اوپر سے نیچے کو تو چونکہ رائی کے دانہ کی یہ دونوں حرکتیں مستقیم ہیں اس لئے ان کے درمیان سکون لازمی ہے یعنی ان کے نزدیک جب رائی کا دانہ پہاڑ سے ملاقی ہوا رجعت قہقری کرے گا تو اس لوٹنے سے قبل اس دانہ کو لطیف سکون ہوا ہوگا اور جب رائی کے دانہ کو سکون ہوا تو ظاہر ہے کہ اس سکون کی مدت تک پہاڑ کی حرکت کو موقوف ماننا پڑے گا اور چونکہ رائی کا دانہ نیچے ہے اور پہاڑ اس کے اوپر اس لئے اس سے صاف لازم آویگا کہ اس کے معنی یہ ہوئے کہ رائی کے دانہ نے اتنے بڑے پہاڑ کو اٹھالیا گوہ وہ اٹھانے کی قدرت اتنی قلیل ہو کہ محسوس نہ ہو سکے تو جب رائی کے دانہ نے ایک پہاڑ کے بوجھ کو اٹھالیا حالانکہ رائی کے دانہ کو پہاڑ سے وہ نسبت بھی نہیں جو حضرت حاجی صاحب کے جسم مبارک کو جہاز سے ہے تو اگر حضرت حاجی صاحب نے جہاز کو اٹھا لیا تو کونسا محال لازم آیا پس خود حکماء کے قول سے ثابت ہوگیا کہ یہ واقعہ عقل کے مطابق ہے گو عوام اس کو خلاف سمجھیں اور ایسی ہی بہت جزئیات ہیں جن کو عامی نظر میں خلاف عقل سمجھا جاتا ہے مگر بضرورت دلیل حکماء اس کے قائل ہیں سو کسی واقعہ پر محض استبعاد کے سبب خلاف عقل ہونے کا حکم لگا دینا کس قدر غلطی ہے ۔ مثلا حکماء کہتے ہیں کہ اگر تم ایک انگلی اپنی زمین پر مارو یا ایک چیونٹی زمین پر چلے تو اس سے ساری زمین میں زلزلہ پیدا ہوجائیگا گو محسوس نہ ہو اسی طرح اگر کنویں کی سطح میں جاکر ایک کٹورے میں پانی بھرا جائے اور دوسرے اتنے ہی بڑے کٹورے میں کسی منارے پر جاکر پانی پھرا جائے تو نیچے کے کٹورے میں پانی زیادہ اور اوپر کے کٹورے میں پانی کم آئیگا پھر فرمایا کہ خود فلاسفہ اور حکماء کو یہ ماننا پڑا ہے کہ بعضے امور جو دلیل سے ثابت ہیں وراءالعقل ہیں اور اسی لئے ان کو ایک