ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
کرتا ہے ایک کو نہیں طبیبوں پر کوئی اعتراض نہیں کرتا وہ جب مسہل دیتے ہیں تو تاکید کردیتے ہیں کہ دیکھوں بھائی تنہا بیٹھنا باتیں نہ کرنا سونا نہیں کوئی ثقیل چیز نہ کھانا ۔ برابر خیال رکھنا گکہ اب دست آیا اب دست آیا ۔ اس ترک لذت اور مراقبہ اور ترک طعام ومنام وخلوت پر کوئی اعتراض نہیں کرتا اور حکماء دین صوفیہ نے جو ترک لذات اور مراقبہ کرایا تو اس پر اعتراض ہے ۔ آخر ان دونوں میں فرق ہی کیا ہے جو ایک جگہ تو ضروری سمجھا جاتا ہے اور دوسری جگہ قابل ا عتراض ٹھہرایا جاتا ہے جس طرح طبیب علالت کے دوران میں یہ پرہیز کراتا ہے پھر بعد صحت جب ضرورت باقی نہیں رہتی پرہیز چھڑا دیتا ہے اسی طرح صوفی محقق ان مجاہدات کو عبادت نہیں بلکہ محض معالجہ سمجھتا ہے ۔ یوں اگر کسی کا مرض دائم ہو تو معالجہ دائم رہے گا ورنہ مرض ختم ہونے پر معالجہ بھی ختم ہوجاتا ہے پھر کیا حال ہوتا ہے وہ حال ہوتا ہے کہ دل بہ یار دست بکار اور وہ حال ہوتا ہے چو فقر اندر قبائے شاہی آمد بہ تدبیر عبید الہی آمد سلطنت کے اندر بھی فقیری ہوسکتی ہے اور اسی سے جواب ہوگیا بعض جہلاء کے اعتراض کا کہ یہ پیر خود تو مرغ اڑاتے ہیں اور مریدوں کو بھوکا مارتے ہیں اس اعتراض کا منشا محض ناواقفیت ہے ۔ چوں نہ دید ند حقیقت رہ افسانہ زدند ۔ انہیں اس فرق کی وجہ نہیں معلوم وہ وجہ اس شعر میں ظاہر کی گئی ہے ۔ تو صاحب نفسی اے غافل میاں خاک مے خود کہ صاحب دل اگر زہرے خورد آں انگبین باشد غرض جو معالجہ سے فارغ ہوچکا ہو پھر اس کو پرہیز کی ضرورت نہیں رہتی چنانچہ مولانا فرماتے ہیں ۔ خلوت وچلہ برو لازم نماند ۔ پھر اس کو اجازت ہو جاتی ہے کہ ہنسے بولے عوام سے ملے معاملہ کرے پھر یہ چیزیں اس کو مضر ہوتیں پھر تو اس کا وہ درجہ ہوجاتا ہے کہ