ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
عنہ نے یہ دعا نہیں کی کہ ان کی محبت زائل فرما دیجئے بلکہ یہ دعا کہ کہ آپ نے جو ان چیزوں کی محبت ہمارے دلوں میں پیدا کر دی ہے وہ معین ہو جاوے آپ کی محبت کی ۔ غرض دنیا کی محبت میں بھی بڑی مصلحتیں ہیں مولانا اسی مصلحت کو فرماتے ہیں ۔ شہوت دنیا مثال گلنجی است کہ ازو حمام تقوی روشن است اگر کسی چیز کی محبت ہی نہ ہو تو اس کے ترک میں مجاہدہ ہی کیا ہو ۔ کمال تو یہی ہے کہ ایک چیز کا اشتیاق ہو لیکن یہ سمجھ کر کہ اس کا استعمال اس طرح مضر ہوگا اس کو ترک کردے مولانا کا یہی مطلب ہے کہ صبر عن الدنیا میں فضیلت ہے اور دنیا کی رغبت ہی تو سبب ہے تقوی کا کیونکہ جب اس کے بے محل استعمال سے رک گیا تو صبر عن الدنیا کی فضیلت حاصل ہوگئی اور یہی تقوی ہت تو تقوی کا سبب یہی دینا ہے غرض ہم تو حب دنیا کو بھی برا نہیں سمجھتے کیونکہ تقوی کا سبب یہی ہے اب بتلائیے کہ علماء پر خواہ میخواہ تحمت لگانا کہ یہ دنیا کو چھڑاتے ہیں اپنی عاقبت خراب کرنا نہیں ہے تو کیا ہے ہاں ہم یہ مطالبہ ضرور کرتے ہیں کہ دنیا کا بھی جو کام کرو ہم سے پوچھ کر کرو کہ جائز ہے یا ناجائز غرض ادھوری بات سن کر علماء کے متعلق غلط رائے قائم کرلی گئی ہے ۔ اگر پوری بات ٹھنڈے دل سے سنتے تو ایسے بیچا اعتراضات کی نوبت نہ آتی ۔ اگر انگریزی سے منع کرنے کی بناء پر یہ شبہ ہے تو میں کہتا ہوں کہ اگر انگریزی کو منع کرتے ہیں تو عربی کی بھی تو ترغیب دیتے ہیں ۔ جب عربی کی ترغیب کا بھی کوئی اثر لوگوں پر نہیں ہوتا تو انگریزی کی ممانعت کا اثر ان کی طرف کیوں منسوب کیا جاتا ہے ۔ پس کو عربی نہ پڑھنے کی وجہ ہے یعنی سستی اور کاہلی وہی وجہ ہے انگریزی نہ پڑھنے کی بھی ۔ لوگ خواہ مخواہ علماء سے بد گمان ہو رہے ہیں میں تو کہا کرتاہوں کہ کسی محقق مولوی کے پاس چھ مہینے رہ جاؤ پھر جو کوئی بھی بد گمانی رہ جاوے ۔