ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
کریں گے کہ آپ خود بھی حلوا نہیں کھائیں گے ۔ دیکھئے گو آپ کے لئے طبیب نے حلوے کو مضر نہیں کہا لیکن پھر بھی چونکہ بچے سے آپ کو محبت ہے اس لئے اگر آپ کا جی بھی چاہے گا تب بھی حلوانہ کھائیں گے تاکہ آپ کو دیکھ کر آپ کے بچے کا بھی کہیں جہ نہ للچا جائے اور کھاکر ضرر میں نہ مبتلا ہوجائے اس کی حفاظت کے لئے آپ نے اپنی مرغوب بلکہ مفید شی کو بھی اپنے لئے ناجائز کرلیا ۔ یہ معنے ہیں فقہاء کے بعض افعال مستحبہ کو بھی مکروہ کہنے کے اب فقہاء کے بعض افعال مستحبہ کو بھی مکروہ کہنے کے اب فقہائے حنفیہ پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ وہ ایسے فعل کو مکروہ کہتے ہیں جس کی فضیلت حدیث میں ہے ۔ معترضین یہی نہیں سمجھے کہ کیوں مکروہ کہتے ہیں جو میں نے مثال دی ہے اس میں کبھی اعتراض نہ کیا کہ حلوے سے منع تو کیا تھا بچے کو اور گھر کے افسر نے منع کردیا گھر والوں کو بھی صوفیہ اور فقہاء میں اس فرق کے ذکر کرنے کے بعد حضرت اقدس نے حاضرین سے والہانہ لہجہ میں فرمایا کہ میں دل سے ملانوں ہی میں حشر زیادہ پسند کرتا ہوں اس سے کہ صوفیوں میں حشر ہو کیونکہ میں اسی جماعت کو افضل سمجھتا ہوں ۔ ہاں غیر محقق ملانوں کی طرح مجھ میں خشکی بھی نہیں میں بے ادب نہیں ۔ حضرات صوفیہ کا بھی بیحد ادب کرتا ہوں اور جو ان کو برا کہے اس کو گستاخی سمجھتا ہوں کیونکہ میں ان حضرات کی غلطیوں کا منشا جانتا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ ان سے کہاں غلطی ہوئی ۔ اس منشاء پر میری نظر ہے منشا پر نظر ہونے سے وہ غلطیاں زیادہ ثقیل نہیں معلوم ہوتیں ۔ اسی لئے اللہ اللہ لرنے والے کا میں نے ہمیشہ ادب کیا ار کسی کا دل نہیں دکھایا ۔ ہاں ان کے غلط مشروب کا ردو قدح کھلم کھلا کیا ہے مگر ایسے عنوان سے کہ دل نہ دکھے اور حق واضح ہوجائے ۔ مجھے مولانا رومی کا یہ قول بہت پسند ہے ۔ ع نرم گو لیکن مگو غیتر صواب ۔ علاوہ غلطیوں کے ایک وجہ بعض صوفیہ کی زبان درازی کی یہ بھی ہے کہ بعضی طبیعتیں آزاد ہوتی ہیں اور بعض میں ادب کا غلبہ ہوتا ہے ۔ لیکن عبدت تو یہی ہے کہ ادب کا غلبہ ہو ۔ مولانا ایک مقام پر اس لفظی بے ادبی کا بھی عذر بیان فرماتے ہیں ۔