ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
اھ اسی لئے میں نے حدیث کی یہ صحیح تفسیر کردی کہ احکام سب واجب العمل ہیں چاہے وہ دنیا ہی کے متعلق ہوں ۔ غرض جب حضور جیسے علوم اولین و آخری کے جاننے والے کے لئے فن باغبانی کے مسئلہ تابیر سے واقف ہونا لازم نہیں تو معلوم ہوگیا کہ یہ کوئی نقص نہیں پھر غضب ہے کہ نبی کا تو تمام فنون سے واقف نہ ہونا کوئی نقص نہ ہو اور ایک مولوی بیچارہ اگر فن سیاست نہ جانتا ہو سے واقف نہ ہونا کوئی نقص نہ ہو اور ایک مولوی بیچارہ اگر فن سیاست نہ جانتا ہو تو اس کا یہ نقص سمجھا جاوے اور اس کو نشانہ ملامت بنایا جائے پھر نو تعلیم یافتوں کی تو کیا شکایت آج کل کے مولوی خود ہی پھیسل گئے چنانچہ بعضوں نے میرے سامنے خود یہ تجویز پیش کی کہ علماء کو ماہر سیاست ہونا چاہئے ان کو مصر بھیجا جاوے ۔ بیروت بیجھا جاوے تاکہ وہاں کے ماہرین سیاست سے وہ سیاست سیکھ کر آئیں اور یہاں کے مدارس دینیہ میں طلبہ کو سیاست کا باقاعدہ نصاب تجویز کرکے درس سیاست دیا کریں میں نے کہا کہ بجائے اس کے کہ یہاں سے علماء وہاں سیاست سیکھنے کے لئے بھیجے جائیں وہاں سے ماہرین سیاست تنخواہ دیکر بلائے جائیں اور وہ علماء کے سامنے اپنے اصول سیاست کو پیش کر کے ان کے متعلق احکام شرعیہ پوچھیں اور علماء انہیں جزئیات سیاست کے متعلق شرعی احکام بتائیں ۔ اس طرح ماہرین سیاست تو ماہر شریعت ہو جائیں اور ماہرین شریعت ماہر سیاست ہوجائیں نہ ہلدی لگے نہ پھکڑی ۔ بس اس وقت تو ہاں ہاں کرتے رہے پھر وہی خبط ۔ الفرقان میں ایک انگریزی داں عہدہ دار نے ایک مضمون لکھا ہے جس میں حضرت شاہ ولی اللہ صآحب رحمتہ اللہ علیہ کی کتاب حجتہ اللہ البالغہ کے حوالہ سے یہ ثابت کرنا چاہا ہے کہ عقل معاد کے ساتھ عقل معاشی کا بھی ہونا ضروری ہے اور عقل معاشی بھی محض احکام کی حکمتیں اور مصالح ہی نہیں بلکہ صنائع جدیدہ کی جس کا کہیں حجتہ اللہ میں نشان تک نہیں ایسے لوگوں کا شریعت پر کچھ لکھنا یا کوئی کتاب تصنیف کرنا ایسا ہی ہے جیسے میں کوئی کتاب فن زراعت یا قانون کے موضوع پر تصنیف کروں ۔ ایک ڈپٹی کلکٹر صاحب نے سود کے