ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
خانصاحب نے کہا کہ یہ تو معرفت نفس کا دعوی ہے جس کے لوازم میں سے معرفت رب ہے جیسا بزرگوں کا ارشاد ہے من عرف نفسھ فقد عرف ربھ اور یہ جو میں نے کہا کہ کمال کی حقیقت جاننے والا اپنے سے کمال کی نفی کرے گا اس میں وجود کا کمال بھی آگیا ۔ اسی طرح اس کی حقیقت پر جب نظر ہوگی اس وقت اس کو صرف حق تعالٰی ہی کے لئے ثابت کرے گا اور غیر حق سے اس کی نفی کرے گا مگر نفی بمعنے بطلان نہیں بلکہ بمعنے اضمحلال اور مسئلہ وحدۃ الوجود کی یہی حقیقت ہے اس تفسیر کے بعد اہل ظاہر کا اس پر یہ اعتراض کہ یہ محض باطل عقیدہ ہے کیونکہ اللہ تعالٰٰی تو فرمائیں کہ اللہ خالق کل شئی خدا تو کہے کہ میں نے مخلوق کو وجود دیا اور یہ کہتے ہیں کہ مخلوق کا وجود ہی نہیں مگر اس شرح کے بعد یہ اعتراض محض بے بنیاد ہوگیا پس مسئلہ کا خلاصہ یہ ہوا کہ اللہ تعالٰی کا وجود وجود حقیقی ہے اور مخلوق کا وجود محض ظلی اور عارضی ہے تو اس معنے جو اصل وجود اللہ تعالٰی ہی کا ہوا اور اس کے مقابلہ میں سب کا وجود عدم کے مشابہ ہوا اس لئے اس مسئلہ کا لقب وحدۃ الوجود پڑگیا گویا وجود وجود وجود کہنے کا مستحق ہے وہ ایک ہی ہے یعنی حق تعالٰی کا اور اس کے آگے سب کا وجود معتدبہ اور قابل اعتناء وقابل اعتبار وقابل شمار نہیں سو مسئلہ محض بے غبار ہے البتہ وہ درجہ علم میں قوم کا مقصود نہیں بلکہ درجہ حال میں مقصود ہے اور اس درجہ حال کو ایک مثال سے سمجھو کہ ایک تحصیلدار اپنے اجلاس میں بیٹھا حاکمانہ لہجہ سے اپنے ماتحتوں کو خطاب کررہا ہے کیونکہ آخر اس کو خدانے حکومت دی ہے اور حکومت کا اثر ہوتا ہی ہے اتنے میں وائسرائے اپنے نظام اور پروگرام کے خلاف دورہ کرتے کرتے دفعتہ تحصیل میں شان وگمان آپہنچا جیسے کہ حکام اکثر کسی مصلحت سے ایسا کرتے بھی ہیں ۔ کیا اس وقت تحصیلدار وائسرائے کے سامنے اپنی کوئیب ہستی سمجھے گا اب اس کا کیا رنگ ہوگا اس قدر مغلوب اور مرعوب ہوگا کہ اپنے کسی ماتحت سے بھی حاکمانہ لہجہ سے خطاب نہ کرسکے گا اور یہ حالت بلا قصد ہوگی بلکہ اگر اس کے خلاف کا بھی وہ قصد کرے گا تب بھی رہ حاکمانہ لہجہ اور اپنی شان