ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
بڑھیاں نے کہا کہ تم اتنے تو مشہور دانشمند ہو اور سلطنت کے سب کام تمہارے سپرد ہیں اور پھر بھی تمہیں اتنی سی بات معلوم نہیں اس نے اس کا بڑا اچھا جواب دیا کہا کہ بڑی بی یہ تو معلومات کی تنخواہ ہے جو مجھ کو خزانہ شاہی سے ملتی ہے اور اگر کہیں مجہولات کے مقابلہ میں تنخواہ ہوتی تو مجہولات اتنی ہیں کہ ایک خزانہ تو کیا دس خزانے بھی اس کے لئے کافی نہ ہوتے وجہ یہ کہ ہر شخص کے معلومات تو محدود ہیں اور مجہولات نامحدود ہیں سو جس کے علم کی یہ حالت ہو وہ کیا دعوٰی کرے ہونے کا اس حالت میں دعوی محض کبر ہے جو ناشی ہوتا ہے جہل سے اس جہل کے سبب سجمھتا ہے کہ میں بڑا فلسفی ہوں عاقل ہوں عالم ہوں قانون دان ہوں ایسا ہوں یہ سب دعوی اسی جہل سے ناشی ہیں کہ وہ علم کی حقیقت کو جانتا نہیں اور اس کے درجہ کو سجھتا نہیں اگر حقیقت پر نظر ہوتی تو وہ اتنی دور ہے کہ اس کے سامنے اپنی معلومات ہیچ درہیچ نظر آتیں اور یہ یقین ہوجاتا کہ میں کچھ نہیں جانتا حضرت مولانا اسماعیل شہید شہید رحمتہ اللہ علیہ ایک بار وعظ سے فارغ ہوئے جس میں عجیب عجیب علوم وحقائق بیان فرمائے تھے لوگ بہت خوش ہوئے اور کسی نے کہا کہ سبحان اللہ کیا علم ہے مولانا نے فرمایا کہ میرا علم تو کچھ بھی نہیں اس نے عرض کیا کہ یہ حضرت کی تواضع ہے اس پر ایک بڑی اچھی بات فرمائی فرمایا کہ یہ میں نے تواضع سے نہیں کہا بلکہ یہ کہنا کہ میرا علم کچھ نہیں یہ دراصل تکبر کا کلمہ ہے کیونکہ یہ بات وہ شخص کہے گا جو حقیقت علم کی جانتا ہوں سو اس کہنے سے تو یہ معلوم ہوا کہ میں علم کی حقیقت جانتا ہوں خیر یہ ایک لطیفہ ہے اسی کی نظیر ایک حضرت حاجی صاحب کا ارشاد ہے حضرت کی خدمت کوئی بزرگ تشریف لائے حضرت نے اپنے حسن ظن کا اظہار فرمایا تو انہوں نے کہا من ہیچ نیم حضرت ہنسنے لگے اور حاضرین سے فرمایا کہ جب عارف اپنی تعریف کرنا چاہتا ہے تو یہ کہتا ہے کہ من ہیچ نیم گویا فناء کا دعوی کرتا ہے اسی طرح ایک بزرگ کانپور میں آئے تھے عبدالرحمن خان کے مدح کے جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ من آنم کہ من دانم ۔