ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
کہ جو تحقیق نہ ہو کہہ دے کہ مجھے تحقیق نہیں یہ بھی تو اتباع ہی میں داخل ہے تو امت کو اس کی اجازت نہیں کہ چاہئے تحقیق ہو یا نہ ہو ہر سوال کا کچھ نہ کچھ جواب دیدے ۔ سو آج کل ایک تو یہ مرض ہے کہ بلا تحقیق کے سوال کا جواب دیدیا جاتا ہے اور یہ کہ ہر سوال کا جواب ہر سائل کو دیدیا جاتا ہے حالانکہ ہر سوال کا جواب ہر سائل نہیں ہوتا مثلا اگر کوئی طبیب سے سنکھیا اور کچلے کے مدبر کرنے کی ترکیب پوچھے تو گو طبیب کوکسی مریض پر یہ اطمینان نہ ہو کہ اس سے سنکھیا اچھی طرح مدبر ہوسکے گا تو اگر وہ طبیب مدبر ( بصیغہ اسم الفاعل ) ہے تو اس کو وہ نسخہ ہرگز نہ بتائے گا ۔ اسی طرح علماء کو چاہئے کہ یہ سمجھیں کہ کون سا سوال کس کے منصب کے مناسب ہے بعضا سوال غیر ضروری ہوتا ہے بعضا غیر مناسب اگر کوئی اصرار کرے تو کہہ دے کہ مجھے تحقیق نہیں اور اگر یہ کہتے ہوئے عار آوے تو کہہ دے کہ یہ سوال تمہارے منصب سے بالا تر ہے بہت سے بہت وہ یہ سمجھے گا کہ انہیں کچھ آتا نہیں تو اس سے تمہارا کیا نقصان ۔ اگر کوئی کہے گا کہ انہیں کچھ نہیں آتا تو کیا وہ تم سے کچھ چھین لے گا ۔ کیمیا کرے اگر کوئی کہے کہ تمہیں کچھ نہیں آتا تم جھوٹے ہوتو وہ اس کہنے سے ذرہ برابر دلگیر نہ ہوگا ۔ اگر ساری دنیا بھی کہے کہ وہ جھوٹا ہے تو اگر وہ سچ مچ کیمیا گر ہے تو اس کو کچھ قلق نہیں ہوگا کیونکہ وہ تو اپنے کمال میں مست ہے بلکہ اور خوش ہوگا کہ اچھا ہے لوگ مجھے جھوٹا سمجھیں ورنہ ناحق پولیس کی نگرانی ہونے لگے گی اسی طرح جو سچے مشائخ ہیں اگر ان کے معتقدین کم ہوجائیں تو وہ تو اور خوش ہوں کہ اچھا ہے ذمہ داری کم ہوئی ۔ اگر امام سنے کہ میرے بیس مقتدیوں میں دس مقتدی کم ہوگئے تو یہ خوش ہونے کی بات ہے کیونکہ بوجھ ہلکا ہوا ۔ اگر بعد کو معلوم ہوا کہ وضو نہیں کیا تھا نماز نہیں ہوئی تو دس ہی سے کہنا پڑے گا کہ اپنی نماز لوٹا لیں ورنہ بیس سے کہنا پڑتا تو جتنے معتقد کم ہوں اچھا ہے مگر آج کل اس کی کوشش کی جاتی ہے کہ معتقد بڑھیں تو یہ امراض ہیں بعضے