ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
بڑے امام تھے ان سے کسی نے ایک جلسہ میں چالیس سوال کئے جن میں سے چھتیس پر لا ادری کہا اور صرف چار کا جواب دیا ۔ آخر خدا کا خوف بھی کوئی چیز ہے اور تو خود جناب رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے سوال کیا کہ شرالبقاع کونسی جگہ ہے اور خیر البقاع کونسی جگہ ہے کیا اتنی سی بات بھی حضور خود نہیں فرما سکتے تھے یہ کوئی باریک بات نہ تھی کہ سب سے اچھا مقام کون ہے اور سب سے بڑا مقام کون ہے ۔ اس کا جواب تو کلیات سے ہم جیسے نالائق بھی سوچ کر دے سکتے ہیں مثلا یہ کہہ سکتے تھے کہ جہاں طاعت ہو وہ سب سے اچھا مقام ہے اور جہاں معصیت ہو وہ سب سے برا مقام ہے یہ میں نے محض مثال کے طور پر کہا تاکہ یہ معلوم ہو جاوے کہ اس سوال کا جواب کچھ مشکل نہ تھا لیکن پھر بھی حضور ایسے امور میں رائے زنی کو جائز نہیں سمجھا اور فرمایا کہ مجھے جب حضرت جبرئیل علیہ اسلام آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے ان سے پوچھا انہوں نے بھی یہی فرمایا دیا کہ مجھے تحقیق نہیں پھر وہ حق تعالٰی سے پوچھ کر جواب لائے اور عرض کیا کہ چونکہ حضور کا سوال تھا اس لئے مجھے آج حق تعالٰی کا اتنا قرب ہوا کہ اس سے قبل اتنا قرب کبھی نہیں ہوا ۔ اور فرمایا کہ آج حضور کے پیغام کی برکت حق تعالٰی جل شانہ کے اورمیرے درمیان میں صرف ستر ہزار حجاب رہ گئے تھے باقی سب اٹھا دئے گئے تھے ۔ اس سے سمجھ لیجئے کہ دراصل کتنے حجاب ہیں پھر آپ نے اللہ تعالٰی کا جواب نقل فرمایا کہ سب سے اچھی جگہ مسجد ہے اور سب سے بری جگہ بازار ہے جب سائل آیا تو حضور نے اس سے یہی جواب نقل فرما دیا ۔ تو صاحب حضور اقدس تو سوالات کے جواب میں انتظار نص کا اور تحیقیق کا فرمادیں اور ہم لوگ اٹکل پچو جو جی میں آوے ہانک دیں اب تو ہر شخص اپنے حق میں گمان کرتا ہے کہ میں خود قانون ساز ہوں ۔ سوالات کا جواب دینا مشکل ہے حالانکہ یہ بڑی ذمہ داری کا کام ہے حضور کا اتباع تو ہر چیز میں ہے جیسے تحقیقات میں اتباع ہے اس میں بھی اتباع ہے