ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
اس کی جواب دہی ہے ۔ ایک بزرگ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جب مجھ سے کوئی شخص مسئلہ پوچھتا ہے تو اس کے جواب کے قبل میں یہ مستحضر کرلیتا ہوں کہ اس وقت میں حق تعالٰی کے سامنے ہوں اور قیامت اور قیامت کا میدان ہے وہاں مجھ سے مسئلہ پوچھا گیا ہے ۔ اور اس وقت جب اس کا جواب دوں گا تو اس جواب کی دلیل بھی مجھ سے پوچھی جائے گی کہ کہاں سے یہ کہا جب یہ اطمینان ہوجاتا ہے کہ اگر دلیل پوچھی گئی تو اپنے جواب کی دلیل بھی حق تعالٰی سے سامنے بیان کر سکوں گا اس وقت جواب دیتا ہوں ورنہ جواب ہی نہیں دیتا ۔ اس استحضار حساب کی وجہ سے علماء وغیرہ علماء میں یہ فرق ہے کہ کیا آپ نے کسی بیر سڑ یا وکیل کو یہ بھی دیکھا ہے کہ اس نے اپنی کسی غلطی کا علان کیا ہو حالانکہ کیا ان سے کبھی غلطی ہی نہیں ہوتی ضرور ہوتی ہے ۔ لیکن کہیں آپ نے دیکھا ہے کہ اپنی غلطی کو کسی نے شائع کیا ہو کہ مجھ سے فلاں مقدمہ میں فلاں غلطی ہوگئی ہے تاکہ دکھلاتا ہوں جنہوں نے یہ اعلان کیا ہے کہ فلاں مسئلہ میں ہم سے غلطی ہوگئی ہے ہم اس سے رجوع کرتے ہیں کیونکہ امت کی باگ ان کے ہاتھ میں ہے اگر وہ ایسا نہ کریں تو امت گمراہ ہو اور یہ اس کے ذمہ دار اور اللہ تعالی کے یہاں مواخذہ دار ہوں بہ خلاف اس کے وکیل صاحب نے الٹی سیدھی مقدمہ کی پیروی کی اور بری الذمہ ہوگئے تو کہاں یہ کام کہاں وہ کام ۔ الحمداللہ میرے یہاں خود ایک سلسلہ ہے ترجیح الراجیح کا جس میں جتنی غلطیاں مجھ سے ہوتی ہیں ان کو وقتا فوقتا سال کے ختم پر شائع کرتا رہتا ہوں اگر کوئی بچہ جتنی متنبہ کرے اور مجھے اطمینان ہو جاوے کہ واقعی مجھ سے غلطی ہوئی تو بلا تامل اس کو تسلیم کرلیتا ہوں اور اپنی رائے سے رجوع کرلیتا ہوں بعضے لوگ اس پر بھی اعتراض کرتے ہیں کہ مزاج میں استقلال نہیں کبھی کچھ فتویٰ دیدیتے ہیں کبھی کچھ اور کیا یہ اچھا ہوتا کہ جہل پر جمار رہتا اور اگر غلطی معلوم بھی ہوجاتی پھر بھی وہی مرغے کی ایک ٹانگ ہانکتا رہتا چاہئے امت گمراہ ہو حضرت امام مالک رحمتہ اللہ علیہ کتنے