ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
لیکن آخر ایک وقت میں دو طرف کیسے متوجہ ہوسکتا تھا کچھ نہ کچھ دور کے سامعین کو تو سننے سے رہ ہی جاتا تھا ۔ اسی حالت میں ایک صاحب نے پکار کر کہا کہ ذرا ادھر بھی متوجہ فرمائے سنائی نہیں دیتا ۔ اب اس اخلاقی جواب تو یہ تھا کہ بھائی اب اور زیادہ کوشش کروں گا کہ سب جگہ آواز پہنچے لیکن میں نے یہ جواب نہیں دیا بلکہ یہ کہا کہ جسے سنائی نہ دے وہ چلا جائے ۔ میں کسی کا نوکر نہیں ہوں جتنی خدمت کر سکتا ہوں کرتا ہوں کسی کو مطالبہ کا حق نہیں اس پر وہ اٹھ کر چل دیے ۔ یہ تھوڑا ہی ہے کہ بس ہمیں دنیا میں تیز ہیں اور بھی تیز ہیں مگر مختلف مذاق کے لوگوں کو کیسے راضی کیا جاسکتا ہے غرض یہ طریقہ کئی کئی شخصوں کے بیان کرنے کا مجھے بالکل بسند نہیں بلکہ میں تو کئی شخصوں کے بیان کرنے کو اس لئے بھی خلاف مصلحت سمجھتا ہوں کہ پھر لوگوں کو مختلف واعظوں میں موازنہ کرنے کا موقع ملتا ہے جیسے گھوڑ دوڑ میں دوڑیں تو گھوڑے اور شرط لگاویں دیکھنے والے اور تماشائی اور بعد کو آپ میں یہ کہیں کہ دیکھو ہمارے گھوڑا جیتا ۔ تمہارا گھوڑا ہارا وہی معاملہ مولوی صاحبان کے ساتھ ایسے موقعوں پر کیا جاتا ہے اور رائے زنی کی جاتی ہے کہ فلاں مولوی صاحب کا وعظ اچھا رہا فلاں کا اچھا نہیں رہا ۔ اور یہ مخلتلف لوگوں کا بیان اور ان کو تحدید و تقسیم لیکچروں میں تو ہو سکتی ہے کیونکہ ان میں تو محض الفاظ ہی الفاظ ہوتے ہیں لیکن وعظوں میں چونکہ علوم ہوتے ہیں اس لئے ان میں تحدید و تقسیم نہیں ہوسکتی ۔ اور علوم وغیر علوم میں اسی فرق کی بناء پر میں ایک وکیل صاحب کو جواب دیا تھا میں نے یہ کہا تھا کہ مجھ سے مجمع میں بیٹھ کر علمی مضامین نہیں لکھے جاتے وہ بولے ہم تو کیسا ہی پیچیدہ مقدمہ ہو مجمع میں بیٹھ کر اس کی مسل کو دیکھتے ہیں اور بیٹھے بیٹھے اپنی رائے قائم کر لیتے ہیں اور جواب یا دعوٰی لکھواتے ہیں میں نے کہا وکیل صاحب آپ کے یہاں علوم کہا ہیں اگر آپ علوم میں خوض کریں اس وقت اندازہ ہو کہ میرا کہنا صحیح ہے یا غلط آپ کے یہاں تو صرف ضابطہ کے چند قانونی الفاظ ہیں علوم کہاں خصوص جب وکیل صاحب کے ذہن میں یہ بھی نہ ہو کہ عنداللہ