ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
دیا جس حاضرین جلسہ بہت ہی خوش ہوئے ۔ چونکہ اس وقت شباب تھا اور طبیعت میں جوش تھا میں نے بعد ختم وعظ یہ بھی کہا کہ میں نے آپ صاحبوں کے سامنے اس معاملہ کے متعلق سب اپنے خیالات ظاہر کردئے ہیں اگر کسی اہل علم کو انگریزی دان کو میرے ان خیلات پر کوئی اشکال ہو وہ اسی جلسہ میں پیش کر دیا جائے بعد کو کوئی یہ نہ کہے کہ ہمارے فلاں اشکال کا جواب تو ہوا ہی نہیں اتنے مجمع میں صرف ایک صاحب کی ہمت ہوئی وہ مدرسہ فتح پوری کے ایک عالم تھے وہ اٹھے اور انہوں نے ایک آیت پیش کرکے ایک سخت اعتراض کیا جس کا الحمداللہ میں نے دو تین لفظوں ہی میں اسی وقت جواب دیدیا اور پھر وہ بیٹھ گئے ۔ پھر میں نے کہا کہ اور کسی کو کچھ کہنا ہے لیکن پھر کسی کو ہمت نہ ہوئی اس کے بعد میں نے کہا کہ صاحبو اب وعظ ختم ہوا ۔ چونکہ میں اس جلسہ کا صدر ہوں اس حیثیت سے یہ تجویز کرتا ہوں اور اعلان کرتا ہوں کہ اب اس کے بعد کوئی بیان نہ ہو نہ کوئی شاعر صاحب کوئی نظم پڑھیں نہ کوئی ناشر صاحب کچھ بیان فرمائیں کیونکہ اب کچھ بیان کرنے کو رہا ہی نہیں ۔ اگر اب کوئی بیان ہوگا تو جو بیان ہوچکا ہے اس کا اثر جاتا رہے گا ۔ اور یہ سب مضامین توجہ منتقل ہو جانے پر ذہن سے نکل جائیں گے ۔ چونکہ ضابطہ کی رو سے اس تجویز کے خلاف کوئی کچھ نہ کہہ سکتا تھا اس لئے سب خاموش رہے اور جلسہ ختم ہوگیا اس کے بعد لوگوں میں چہ میگوئیاں ہوئیں اور منتظمان کو برا بھلا کہنے لگے کہ تم نے ان کی صدارت کو کیوں منظور کرلیا ۔ انہوں نے جواب دیا کہ کیا ہمیں غیب کی خبر تھی کہ یہ ہوگا ۔ تو غرض میں نے تو ہمیشہ گنوار ہی پن کیا اور الحمداللہ کہیں مرعوب ومغلوب نہیں ہوا اور ایک ایسا ہی خشک جواب سہارنپور کے جلسہ میں دیا تھا وہ بھی بہت بڑا جلسہ تھا ۔ سب تک آواز نہ پہنچ سکتی تھی کیونکہ میں مکبرالصوت آلہ تو ہوں نہیں حتی الامکان اس کی کوشش تو ہر وعظ میں کرنے کا میرا معمول تھا کہ جہاں تک ہوسکے سب کو آواز سنائی دے چنانچہ اپنا رخ بھی ہر طرف پھیرتا رہتا تھا