ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
حضرت عمر وبن العاص جو کہ امیر لشکر تھے اور مصر کا محاصرہ کئے ہوئے ان کو صرف ایک مہینہ گذر گیا تھا جو سلطنت کے مقابلہ میں کچھ زیادہ مدت نہ تھی جب حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو اس کی اطلاع پہنچی تو آپ نے امیر لشکر کو یہ لکھ کر بھیجا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ اتنے دن محاصرہ کو ہوگئے اور اب تک کامیابی نہیں ہوئی معلوم ہوتا ہے کہ لشکریوں میں تفویض اور تقوے کی کمی پیدا ہوگئی ۔ آپ اس کا عام اعلان کریں کہ سب اپنے معاصی سے توبہ کریں اور اپنی اصلاح کریں ۔ دیکھئے حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم اس زمانہ میں بے سروسامان تھے اور ابھی صرف ایک مہینہ ہی محاصرہ کو گذرا تھا لیکن پھر بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس پر تعجب ہوا کہ فتح میں اتنی دیر کیوں ہوئی اور بجائے بے سروسامانی پر اس کو محمول کرنے کے اس پر محمول کیا کہ معلوم ہوتا ہے تم لوگ دین میں سست ہوگئے ہو اور اسی کی طرف آپ نے توجہ دلائی چنانچہ سب نے مل کر توبہ کی ۔ اس کے بعد پھر جو حملہ کیا ہے تو ایک دن ہی میں شہر فتح ہوگیا ۔ اب مسلمان اور سب تدبیریں تو کرتے ہیں مگر اپنے گناہوں سے توبہ نہیں کرتے ۔ اور اپنے دین کی اصلاح نہیں کرتے حضرت یہ سنت اللہ ہے اسے کر کے تو دیکھئے انشاء اللہ غیب سے مسلمانوں کی فلاح کی صورت پیدا ہوجائے ۔ غرض ایڈریا نوپل کے نکل جانے پر ایک صاحب نے مجھے یہاں تک لکھ مارا کہ نعوذ باللہ معلوم ہوتا ہے اللہ میاں بھی تثلیث کے حامی ہیں اور یہ ایسے شخص نے لکھا جو مولوی کہلاتے تھے اور مجھ سے بیعت بھی تھے وہ اتفاق سے میرے پاس آگئے میں نے ان سے صاف کہہ دیا تمہارا میرے یہاں کچھ کام نہیں ۔ اگر جاہل ہوتے تو میں سمجھتا کہ یہ جہل سے ناشی ہے لیکن واقف ہو کر بھی جو ایسی بات لکھی اس کی کیا تاویل ہوسکتی ہے کیا مجھ سے اس واسطے بیعت ہوئے تھے معلوم ہوتا ہے تمہاری بیعت ہی مہمل تھی انہوں نے صاف کہا کہ اگر آپ سچی بات پوچھتے ہیں تو یہ ہے کہ اصل میں میں اعتقاد سے بیعت نہیں ہوا تھا اس وقت میں بیمار تھا اور اس نیت سے بیعت ہوگیا تھا کہ بیعت کی برکت سے میں اچھا ہو