ملفوظات حکیم الامت جلد 10 - یونیکوڈ |
|
لے گئیں تو ان صحابیوں سے فرمایا کہ یہ صفیہ تھیں ۔ انہیں بڑا گراں گذرا کہ بھلا حضور پر بھی نعوذ باللہ کوئی شبہ ہوسکتا تھا حضرات صحابہ بڑے جان نثار تھے ۔ ان کی تو ایسی کیفیت تھی کہ اس سے زیادہ بھی دیکھ لیتے تو اپنی آنکھوں پر شبہ کرتے حضور پر ہرگز شبہ نہ کرتے ۔ خود میرے سامنے نواب رامیوں نے جو ایک آوارہ شخص تھا یہ کہا کہ میں قادیانی کا اتنا غیر معتقد ہوں کہ اگر وہ قلعہ کو اٹھا کر اسٹیشن تک پہنچادے جب بھی میں یہی کہوں گا کہ وہ اہل باطل ہے اوراپنی آنکھوں کا بھی یقین نہ کروں بلکہ یہ سمجھوں کہ یہ غلط دیکھ رہی ہیں یہ تو سوظن کے متعلق واقعہ ہے اور ایک حسن ظن کے متعلق بھی واقعہ ہے جو حیدر آباد کے نظام حال کا ہے ۔ میں حیدر آباد گیا تو وہاں بھی احباب کے اصرار پر چند بار وعظ کہنے کا اتفاق ہوا ۔ ان وعظوں میں میں نے بہت نرمی اور لطف سے جیسی کہ میری عادت ہے بدوعات کا کچھ رد بھی کیا ۔ یہ وہاں کے مشائخ کو ناگوار ہوا اور اس پر شور غل کیا یہاں تک کہ نظام حال کی خدمت میں ایک محضر نامہ پیش کیا جس میں لکھا کہ دو وعظوں میں اتنا ہوا ہے اگر زیادہ وعظ ہوئے تو سارا شہر بگڑ جائے گا ان کی آمد کو قانونا بند کیا جائے نظام نے دیکھ کر یہ کہا کہ اس کی بھی کوئی وجہ ہوگی ۔ تم ان کے پاس اعتراضات لکھ کر بھجیو اور وہ اعتراضات مع جوابات کے ہمیں دکھلاؤں اس وقت ہم فیصلہ کریں گے ۔ لوگ سمجھ گئے کہ نواب صاحب خفا ہوگئے اور انہیں ہوگئے اور انہیں اپنی روٹیوں کی فکر پڑگئی ۔ لوگوں میں کہنے لگے کہ ہم نے تو لوگوں کے بھکانے سے لکھ دیا تھا ہم کو دھوکہ دیا گیا غلط روایتیں بیان کر کے ہم سے دستخط کرالئے گئے غرض سب نے بہانے کر کرکے اپنی جان بچائی ۔ نواب صاحب نے معترضین سے چلتے وقت یہ بھی کہہ دیا کہ ساری دنیا کی قومیں تو متفق ہورہی ہیں اور مسلمان ہیں کہ آپس میں لڑرہے ہیں اس سے بھی انہیں معلوم ہواکہ نواب صاحب اس منحصر نامہ خفا ہیں ان سے تو یہ کہا مگر نواب صاحب نے بطور خود مولوی عبدالرحمن صاحب سہارنپوری سے جن کے وہ بہت معتقد تھے بطور خود میرے متعلق تحقیق کی انہوں نے محبت سے جو کچھ میرے