سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
لیکن اس موقع پرپہاڑوں کے فرشتے کی طرف سے اس پیش کش کے جواب میں نبیٔ رحمت ﷺ کی زبان مبارک سے اپنے ان بدترین دشمنوں اوربدخواہوں کیلئے جوالفاظ نکلے … عفوودرگذرکے باب میں انسانی تاریخ شایدکوئی ایسی مثال کبھی پیش نہیں کرسکے گی… آپؐ نے اس فرشتے کومخاطب کرتے ہوئے اپنے ان دشمنوں کے بارے میں فرمایا: بَل أرجُو أن یُخْرِجَ اللّہُ عَزّ وَ جَلّ مِن أصْلَابِھم مَن یَعبُدُ اللّہَ وَحدَہٗ لَا یُشرِک بِہٖ شَیئاً یعنی’’ انہیں ہلاک نہ کرو، کیونکہ مجھے اللہ سے امیدہے کہ وہ ان کی آئندہ نسلوں میں ایسے لوگ پیدافرمائے گاجوصرف اللہ کی عبادت کریں گے اوراس کے ساتھ کسی کوشریک نہیں ٹھہرائیں گے‘‘۔(۱) (۲) اس کے بعدرسول ا للہﷺنے مکہ کی جانب اپناسفرجاری رکھا، جب آپؐ’’وادیٔ نخلہ‘‘ ------------------------------ (۱) صحیح بخاری[۳۲۳۱] کتاب بدء الخلق ،باب :اذاقال أحدکم آمین… نیز صحیح مسلم، باب ما لقی النبیﷺ من أذیٰ المشرکین والمنافقین۔ (۲) پہاڑوں کے فرشتے کی طرف سے ان اہلِ طائف کودونوں پہاڑوں کے درمیان یوں کچل کرہلاک کرڈالنے کی اس پیش کش کے جواب میں رسول اللہﷺ کی طرف سے یہ جواب ’’رحمت وہمدردی ‘‘کے باب میںاگرچہ رہتی دنیاتک تمام دنیائے انسانیت کیلئے ایک روشن مثال ہے… لیکن ہم برصغیراورخصوصاً پاکستان سے تعلق رکھنے والوں کواس موقع پربطورِخاص اس اہم ترین تاریخی حقیقت کااستحضاربھی کرناچاہئے کہ برصغیرمیں سب سے پہلے دینِ اسلام کی شمع لے کرجوکم سن سپہ سالارپہنچا… وہ عظیم فاتح جس نے صرف سترہ برس کی عمرمیں سندھ فتح کیا… یعنی محمدبن قاسم الثقفی رحمہ اللہ… اس کاتعلق بنوثقیف سے تھا،اوراہلِ طائف سب ثقفی ہی تھے۔اگرچہ بعدمیں بعض انتظامی امورکے پیشِ نظر محمدبن قاسم کے والدنیزچچا(حجاج بن یوسف ثقفی) ودیگرمتعدداہلِ خاندان طائف سے بصرہ(عراق) منتقل ہوگئے تھے اورپھرفتح سندھ کے موقع پرمحمدبن قاسم نے مکران ٗ بلوچستان ٗ سندھ اورملتان کی جانب پیش قدمی کاسلسلہ بصرہ سے ہی شروع کیاتھا… لیکن اصل میں تواس کاوطن طائف تھا، لہٰذا اگراہلِ طائف ہلاک کردئیے جاتے تومحمدبن قاسم بھی اس دنیامیں نہ آتا… وللہ فی خلقہٖ شؤون ۔