سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
اللہ کی قدرت ملاحظہ ہوکہ جوشخص تھوڑی دیرقبل تک رسول اللہﷺاورابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی تلاش میں سرگرداں تھا… ان کاجانی دشمن … اورخون کاپیاساتھا… اب وہی جاں نثاربن کروہاں سے لوٹا… اوراب وہی ان کامحافظ بن گیا…مدینہ میں آمد : اس طویل سفر کے بعدآخرکاررسول اللہ ﷺاورآپؐکے ہمسفریعنی حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ۸/ربیع الاول ۱۴ نبوی بروزپیرمدینہ کے مضافات میں پہنچ گئے۔ چونکہ آپﷺکی مکہ سے روانگی کی خبرمدینہ پہنچ چکی تھی اس لئے اہلِ مدینہ نہایت بیتابی کے ساتھ آپؐکی آمدکے منتظرتھے،اوروہ ہرروزصبح ہوتے ہی شہرکی حدودسے باہرنکل کر آپؐکے استقبال کیلئے وہاں کھڑے ہوجاتے…اورآپؐ کی آمدکانہایت بے چینی کے ساتھ انتظارکرتے… اوروہ بے چین کیوں نہ ہوتے… کہ …آنے والامہمان آخرکون تھا…؟وہ عزیزترین مہمان… خاتم الأنبیاء……سیدالبشر…بلکہ سیدالخلق… ایسا مہمان جس کیلئے وہ سب اپناتن من دھن سبھی کچھ نچھاورکردینے کیلئے بیقرارتھے…وہ عظیم مہمان کہ جس کانامِ نامی اوراسمِ گرامی ’’محمدؐبن عبداللہ‘‘تھا…اس پیارے مہمان کاانتظارانہیں بیقرارکئے ہوئے تھا… !! اس دورمیں کوئی ٹیلی فون یاٹیلی گرام یادیگرذرائعِ اتصالات کاتوکوئی وجودنہیں تھا… لہٰذا بس… آنے جانے والے مسافروں سے وہ مسلسل پوچھتے رہتے کہ ’’کیاکوئی سوار…کوئی قافلہ… کوئی مسافر…تمہیں راستے میں نظرآیا…؟؟‘‘اورپھراسی کیفیت میں جب دھوپ تیزہوجاتی … تب وہ سب اپنے اپنے گھروں کی طرف واپس لوٹ جاتے۔