سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
جبکہ ان کاسردار’’عدی بن حاتم الطائی‘‘اپنے علاقے سے بچ نکلنے میں کامیاب رہا،اوروہاں سے فرارہونے کے بعدوہ مسلسل سفرکرتاہواملکِ شام جاپہنچا،جہاںاس نے اپنے ہم مذہب لوگوں یعنی ’’رومیوں‘‘کی پناہ حاصل کرلی(۱) دوسری جانب مسلمان جب کامیاب وکامران وہاں سے واپس مدینہ کی جانب عازمِ سفر ہوئے تواب ان کے ہمراہ اس شکست خوردہ قبیلہ ’’طی‘‘سے تعلق رکھنے والے قیدی بھی بڑی تعدادمیں موجودتھے،اوراسی کیفیت میں مسلسل سفرکرتے ہوئے یہ اسلامی لشکرآخرواپس مدینہ منورہ آپہنچا۔٭…سَفّانہ بنت حاتم الطائی : ایک روزرسول اللہﷺجب مسجدِنبوی کے قریب سے گذررہے تھے تب وہاں ان قیدیوں میں سے کچھ لوگ موجودتھے ٗ انہی میں سے ایک عورت نے آگے بڑھ کررسول اللہﷺسے رُکنے کی درخواست کی ،اوراپنی طرف متوجہ کرتے ہوئے یوں کہنے لگی :’’مجھے دیکھئے … میں اپنے قبیلے’’طی‘‘کے سابق سردار ’’حاتم طائی‘‘کی بیٹی ہوں…اورقبیلے کے موجودہ سردار’’عدی بن حاتم‘‘کی بہن ہوں…میراباپ ملکِ عرب کا انتہائی سخی ٗمہمان نواز اور مہربان ترین انسان تھا…جس کی سخاوت وفیاضی اورانسان دوستی وہمدردی ضرب المثل تھی…لیکن وہ تواب اس دنیامیںنہیں رہا …اورمیرابھائی بھی اس وقت بہت دور ہے… وقت بدل چکا…حالات بدل گئے…سبھی کچھ بدل گیا…اے اللہ کے رسول! ------------------------------ (۱) ملکِ شام اس زمانے میں ’’سلطنتِ روم‘‘کاحصہ تھا،اور’’رومی‘‘نصرانی مذہب کے پیروکارتھے،جبکہ عدی بن حاتم بھی اپنے باپ حاتم طائی کی طرح دینِ نصرانیت اختیارکرچکاتھا،لہٰذامسلمانوں کے ہاتھوں شکست وپسپائی کے بعداب وہ پناہ کی تلاش میں اپنے ان ہم مذہب لوگوں کے پاس آپہنچااوروہیں رہائش اختیارکرلی۔