سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا؛’’اے محمد! اپنی امت کومیراسلام کہئے گا،نیزانہیں میرایہ پیغام بھی پہنچادیجئے گاکہ جنت کی مٹی تونہایت خوشگوارہے،وہاں کاپانی خوب میٹھاہے،وہاں کی زمین ہموارہے،اوراس کی گھاس ’’سُبْحَانَ اللّہِ وَ الحَمْدُ لِلّہِ ، وَلا اِلٰہَ اِلّا اللّہُ ، وَ اللّہُ أکبَرُ‘‘ ہے۔ یعنی ’’جنت‘‘ توبہت ہی عمدہ مقام ہے اوروہاں کے مناظرانتہائی دلکش اورجاذبِ نظر ہیں…لہٰذاہرمسلمان کوخوب ذوق وشوق اورہمت کے ساتھ جنت کے حصول کیلئے کوشش وجستجوکرنی چاہئے،اوراس مقصدکیلئے یہ بات بھی معلوم ہونی چاہئے کہ وہاں کی لہلہلاتی کھیتیوں اورسرسبزوشاداب باغوں میں پہنچنے کیلئے طریقہ یہ ہے کہ ’’سُبْحَانَ اللّہِ وَ الحَمْدُ لِلّہِ ، وَ لَا اِلٰہَ اِلّا اللّہُ ، وَ اللّہُ أکبَرُ‘‘ کاخوب وردکرتے رہناچاہئے۔ یقیناا س سے ’’ذکراللہ‘‘کی بہت زیادہ اہمیت وفضیلت ثابت ہوتی ہے۔معراج کے بعد : سفرِاسراء ومعراج سے واپسی کے بعدرسول اللہﷺ مزیدذوق وشوق اورہمت وجذبے کے ساتھ خلقِ خداکوپیغامِ حق پہنچانے میں مشغول ومنہمک ہوگئے۔البتہ اب آپؐکی زیادہ توجہ قریش کی بجائے ان قبائل کی طرف تھی جومکہ شہرسے باہرمضافاتی علاقوں میں آباد تھے، مثلاً بنوعامر ٗ غسان اورکندہ وغیرہ،نیزمذہبی ٗتجارتی ومعاشی امورکی خاطربیرونِ مکہ سے آنے والے افرادیاقبائلی وفودوغیرہ…چنانچہ ان دنوں آپؐ نے اس سلسلے میں مختلف وفوداورشخصیات سے ملاقاتیں کیں۔ ٭…انہی دنوں مدینہ (جس کانام اس دورمیں یثرب تھا)سے تعلق رکھنے والے ’’سوید