سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
کواس سفرکے موقع پر’’بلندیوں‘‘پرلے جایاگیا، توپھرامتی کی حیثیت سے ہمیں یہ بات ہرگززیب نہیں دیتی کہ ہم’’پستی‘‘اور’’گراوٹ‘‘میں مبتلا رہیں۔ ارشادِربانی ؛ {لَقَد خَلَقْنَا الاِنسَانَ فِي أحْسَنِ تَقوِیم ، ثُمّ رَدَدْنَاہُ أسفَلَ سَافِلِینَ ، اِلّا الّذینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصّالِحَاتِ فَلَھُم أجرٌ غَیرُ مَمنُونٍ}کایہی معنیٰ ومفہوم ہے۔یعنی ’’ہم نے انسان کوپیداکیابہترین صورت میں، پھراسے نیچوں سے نیچاکردیا، لیکن وہ لوگ جوایمان لائے اورنیک عمل کرتے رہے ٗان کیلئے اجرہے کبھی نہ ختم ہونے والا ‘‘۔(۱) ان آیات میں ’’اسفل سافلین‘‘ سے مرادعقیدہ وایمان کی خرابی اوربدعملی کے ساتھ ساتھ اخلاق وکردارکاگھٹیا پن اورگراوٹ بھی ہے جس کی وجہ سے جہنم میں ان کاٹھکانہ سب سے نیچے ہوگا۔٭…نوافل کی فضیلت : حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کومخاطب کرتے ہوئے ارشادفرمایا: (یَا بِلَال! حَدِّثنِي بِأرجَیٰ عَمَلٍ عَمِلتَہٗ عِندَکَ فِي الاِسلَام ، فَاِنِّي سَمِعتُ اللّیلَۃَ خَشفَ نَعلَیکَ بَینَ یَدَيَّ فِي الجَنَّۃِ) یعنی:’’اے بلال! قبولِ اسلام کے بعدآپ نے جوبہترین عمل انجام دیاہے مجھے اس کے بارے میں بتائیے؟کیونکہ آج رات میں نے آپ کی جوتیوں کی آوازجنت میں سنی ہے‘‘۔ اس پرحضرت بلال رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: مَا عَمِلْتُ عَمَلاً فِي الاِسلَامِ أرجَی ------------------------------ (۱) سورۃ التین[۴۔۵۔۶]