سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
ان کے ساتھ کسی چھیڑچھاڑاور تصادم سے گریزکیا،جس سے یقیناآپؐکی صلح پسندی ظاہرہوتی ہے۔آخرآپ ؐنے واپسی کافیصلہ فرمایااورپھرتبوک سے مدینہ کی جانب سفرکرتے ہوئے آپؐاپنے جاں نثارساتھیوں سمیت بخیروعافیت ماہِ رجب سن ۹ہجری میںمدینہ منورہ واپس پہنچ گئے،یہ سفرکل پچاس دن کاتھا،جس میں سے بیس دن تبوک میں قیام رہا،جبکہ باقی تیس دن آمدورفت میں صرف ہوئے۔٭…نتائج : غزوۂ تبوک کے موقع پراگرچہ مسلمانوں کوبہت زیادہ مشکلات اورظاہری ونفسیاتی ہرقسم کی پریشانیوں سے دوچارہوناپڑا،حتیٰ کہ انہی مشکلات کی وجہ سے یہ غزوہ مؤمنین اورمنافقین کے مابین تمیزاورپہچان کامعیاربن گیا…تاہم نتائج کے اعتبارسے یہ غزوہ مسلمانوں کے حق میں بہتہی بہتراورانتہائی مفیدثابت ہوا،مثلاًیہ کہ: ٭…اس غزوے کے موقع پراگرچہ مشکلات توبہت زیادہ درپیش تھیں ٗلیکن منزلِ مقصودیعنی ’’تبوک‘‘پہنچنے کے بعدنہ توکوئی دشمن نظرآیااورنہ ہی کسی جنگ کی نوبت آئی…اس طرح اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں کیلئے غیبی امدادکاانتظام اوربے فکری ومسرت کاسامان کیاگیا۔ ٭…وہاں جزیرۃ العرب اورسلطنتِ روم کے مابین اس سرحدی علاقے میں بڑی تعدادمیں ایسے جنگجوقبائل آبادتھے کہ جواگرچہ عرب تھے ٗلیکن وہ نصرانی تھے،نیزسیاسی طورپروہ سلطنتِ روم کے زیرِاثربھی تھے،یعنی عرب ہونے کے باوجودوہ رومیوں کے ہم مذہب بھی تھے اوران کے زیرِاثربھی تھے ،اوراسی وجہ سے ان کی تمامتروفاداریاں بھی رومیوں کے ساتھ ہی تھیں،غرضیکہ دینی ٗسیاسی ٗواقتصادی ٗہرلحاظ سے وہ رومیوں کے ہی