سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
ہجرتِ مدینہ نبوت کے تیرہویں سال حج کے مہینے میں ’’بیعتِ عقبہ ثانیہ‘‘ کے کچھ عرصے بعدرسول اللہ ﷺ نے اپنے جاں نثارصحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کومکہ سے نئی منزل یعنی مدینہ کی جانب ہجرت کاحکم دیا،اورتب تقریباًدوماہ کے اندراندرتمام صحابۂ کرام ہجرت کرگئے ،اور مکہ میں صرف اکادُکامجبورومحبوس افرادہی باقی رہ گئے۔ وطن کی سرزمین میں یقینابڑی کشش ہوتی ہے اوروطن کی محبت بہت مضبوط ہواکرتی ہے…مگراللہ اوراس کے رسولؐ کے حکم کے مقابلے میں ہرکشش ٗ ہرتعلق ٗاورہرمحبت ہیچ ہے۔ رسول اللہﷺکے جان نثارصحابۂ کرام کایہی عقیدہ وایمان تھا… اسی کے مطابق ان کاعمل بھی تھا… اوریہی ان کاکرداربھی تھا…! چنانچہ رسول اللہﷺکی طرف سے ہجرت کے اس حکم کی تعمیل میں وہ اپناوطن ٗ اپناشہر ٗاپنی سرزمین ٗاپنامال واسباب ٗ اپناکاروبار ٗ اپناگھربا ر ٗ اپنی زمیں جائیداد… سبھی کچھ چھوڑکر… خالی ہاتھ روانہ ہوگئے… اوراس مقصدکیلئے انہوں نے ایسی تکلیفیں اورصعوبتیں خندہ پیشانی سے برداشت کیں کہ جن کے تصورسے ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ہجرت کاحکم آنے کے بعددیکھتے ہی دیکھتے کیفیت یہ ہوئی کہ مکہ مسلمانوں سے خالی ہوگیا، صرف چندمجبورومحبوس قسم کے افرادہی رہ گئے،اس کے علاوہ خودرسول اللہﷺ ٗنیزحضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ٗاورحضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ابھی تک مکہ میں تھے، کیونکہ ان دونوں حضرات کوتاہنوزخودرسول اللہﷺنے روانگی سے روک رکھاتھا۔ اس دوران حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ نے متعددباررسول اللہﷺسے ہجرت کی