سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
غزوۂ تبوک رسول اللہﷺاورآپ کے جاں نثارصحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کوسالہاسال سے مشرکینِ مکہ کی جانب سے جارحیت اورمخالفت کاسامناتھا،وقتاًفوقتاًمختلف جنگوں کے بعد بالآخرسن آٹھ ہجری میں فتحِ مکہ کایادگاراورتاریخی واقعہ پیش آیا ٗجوکہ حق وباطل کے درمیان فیصلہ کن مرحلہ ثابت ہوا،جس کے نتیجے میں مشرکینِ مکہ کی تمامترشان وشوکت داستانِ ماضی بن کررہ گئی …اس فتحِ مبین کے بعدمشرکینِ مکہ کی طرف سے چندمعمولی جھڑپوں کے سواباقاعدہ کوئی بڑی مشکل پیش نہیں آئی۔ لیکن مشرکینِ مکہ کی طرف سے اب اس بے فکری اوریکسوئی حاصل ہونے کے بعدجلدہی ٗ یعنی اگلے ہی سال سن ۹ہجری میں ایک اوربڑی آزمائش سامنے آکھڑی ہوئی،وہ یہ کہ رسول اللہﷺکواورمسلمانوں کومسلسل اس قسم کی خبریں موصول ہونے لگیں کہ روئے زمین کی سب سے بڑی قوت یعنی’’سلطنتِ روم‘‘نے مسلمانوں پریلغارکرنے اورانہیں ہمیشہ کیلئے نیست ونابودکردینے کاقطعی فیصلہ کرلیاہے…اوراس مقصدکیلئے ملکِ شام کی سرحدوں پر’’تبوک‘‘نامی مقام پران کابہت بڑالشکرجمع ہوچکاہے…! یہ خبرمسلمانوں کیلئے انتہائی تشویش کاباعث بنی،رسول اللہﷺنے اپنے جاں نثارساتھیوں کوتیاری کاحکم دیا۔ غزوۂ تبوک (جوکہ آپﷺکی حیاتِ طیبہ میں آخری غزوہ ثابت ہواتھا)کے موقع پرکچھ ایسے حالات وواقعات پیش آئے جواس سے قبل کبھی کسی غزوے کے موقع پرپیش نہیں آئے