سیرت النبی صلی اللہ علیہ و سلم |
وسٹ بکس |
|
رکھاتھا۔چنانچہ اس غارسے نکل کرجب آگے روانگی کامرحلہ آیاتو ٗ پہلے سے طے شدہ منصوبے کے مطابق یہ رہبر وہاں آمدکے موقع پریہ دونوں اونٹنیاں بھی ہمراہ لایا۔٭…عظیم خاتون : جب یہ دونوں حضرات اونٹنیوں پرسوارہوچکے توعین موقع پرحضرت ابوبکررضی اللہ عنہ کی بیٹی حضرت اسماء رضی اللہ عنہابھی کھانالئے ہوئے وہاں پہنچیں ٗ جوکہ انہوں نے بڑے ہی شوق اوراہتمام کے ساتھ ان دونوں حضرات کیلئے ’’زادِراہ‘‘کے طورپر تیارکیاتھا۔ اُس زمانے میں اونٹ پرجوگدی ہواکرتی تھی جس پرسواربیٹھتاتھا ٗ سوارکسی رسی کے ذریعے اپناکچھ مختصرسامان بھی اسی گدی کے ساتھ لٹکادیاکرتاتھا، اُس روزاسماء ؓجب یہ کھانالائیں تواب اس برتن کواونٹنی پررکھی ہوئی اس گدی کے ساتھ لٹکانے کیلئے کوئی رسی وہاں دستیاب نہیں تھی ، تب اسماء ؓنے اپنادوپٹہ پھاڑکردوحصوں میں تقسیم کیا،ایک حصے کوبل دے کراس سے رسی تیارکی، اورپھراس سے کھانے کے اُس برتن کواونٹنی پررکھی ہوئی گدی کے ساتھ لٹکادیا… اسی واقعے کی نسبت سے اسماء ؓتاریخ میںہمیشہ کیلئے ’’ذات النطاقین‘‘ یعنی’’اپنے دوپٹے کے دوحصے کردینے والی‘‘کے لقب سے مشہورہوگئیں۔(۱) اس کے بعدحضرت اسماء رضی اللہ عنہانے بھیگی پلکوں کے ساتھ ان دونوں حضرات کو رخصت کیا… اورتب ان کے دل میں اندیشوں اوروسوسوں کاایک طوفان برپاہونے لگا کہ نہ جانے … اللہ کے رسولﷺ… اوران کے ہمراہ میرے پیارے باباجان… ------------------------------ (۱)بعض کتبِ تاریخ میں دوپٹے کی بجائے اس پٹکے کاتذکرہ ہے جوکہ اُس دورمیں عورتیں عموماًاپنی کمرکے گردباندھاکرتی تھیں ٗ تاکہ کام کاج کرتے وقت لباس اِدھراُدھراُڑنے اورکام کاج میں رکاوٹ بننے کی بجائے ایک جگہ ٹکارہے۔اسماءؓ نے اپنے اس پٹکے کودوحصوں میں تقسیم کیا۔واللہ اعلم۔